• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلامی دفاعی اتحاد کے نام پر مسلم اکثریتی ممالک کے رہنمائوں کا اجلاس دراصل سعودی عرب اور امریکہ میں تعلقات کے ایک نئے دور کو کچھ تقریباتی رنگ و بو بخشنے کی کوشش تھی۔ قابل توجہ واقعات صرف تین تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور شاہ سلمان نے 350ارب ڈالر کے تجارتی معاہدوں پر دستخط کئے ۔ اس میں امریکہ سعودی عرب کو ایک سو دس ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرے گا۔ دوسرا اہم واقعہ شاہ سلمان اور ڈونلڈ ٹرمپ کا روایتی تلواریں تھام کر رقص کرنا تھا۔ اگر کسی کو رقص کے ان دو کرداروں کی معنویت سے 1939 ء کا ربن ٹراپ ۔مولوٹوف معاہدہ یاد آجائے تو اسے محض تاریخ کی ستم ظریفی سمجھا جائے۔ اس معاہدے کو سوویت یونین اور جرمنی میں امن معاہدہ قرار دیا گیا تھا جب کہ اس کا حقیقی مقصد پولینڈ کی ریاست کو دونوں ملکوں میں تقسیم کرنا تھا۔ یہ سوچنا تو دانشوروں کا کام ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور شاہ سلمان کے والہانہ رقص میں پولینڈ کا کردار کس بدنصیب ملک کے حصے میں آئے گا۔ یہ خبر البتہ مصدقہ ہے کہ کانفرنس میں وزیراعظم نواز شریف کو خطاب کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اس اجتماع کا مرکزی واقعہ مسلم اکثریتی ممالک کے رہنمائوں کے سامنے ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر تھی۔ اس تقریر کو دراصل سابق امریکی صدر باراک اوباما کی 4جون 2009 ء کو قاہرہ میں کی جانے والی تقریر کا جواب سمجھا جا رہا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی میں ایک تاریخی تقریر کی تھی ۔انیس مہینے بعد 12مارچ 1949 ء کو وزیراعظم لیاقت علی خان نے دستور ساز اسمبلی ہی میں ایک تقریر کی تھی۔ تاریخ میں بارہا ایسا ہوا کہ جناح کی بصیرت کا ردعمل لیاقت کی خوش نما خطابت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ باراک اوباما کی وسعت نظر کا جواب ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی تقریر میں نظر آتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسلامی انتہا پسندی کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا۔ تاہم اس ضمن میں ٹھوس اقدامات کے اعلان سے گریز کیا۔ البتہ انہوں نے ایران کو ’ـانتشار اور تباہی‘ کا مرکز قرار دیا۔ ان کے میزبان نے اس مصرع پر گرہ لگاتے ہوئے ایران کو ’عالمی دہشت گردی کا رہنما‘ قرار دیا۔ ٹرمپ نے ایک خوشخبری مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کو یہ بھی سنائی کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر حساسیت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ’وہ کسی کو لیکچر نہیں دینا چاہتے کہ ان کا طرز زندگی کیا ہو۔ وہ تو مشترکہ مفادات کی بنیاد پر پارٹنر شپ چاہتے ہیں‘۔ یہ سوال البتہ تشنہ جواب رہ گیا کہ اگر انسانی حقوق کا احترام مقصود نہیں تو ایران اور شام پر تنقید کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف اس اتحاد کا اعلان سعودی رہنمائوں نے کوئی ڈیڑھ برس پہلے کیا تھا۔ اس فہرست میں پاکستان کا نام بھی شامل تھا ۔ ابتدائی طور پر خبر آئی کہ پاکستان سے اس اتحاد میں شمولیت کی باقاعدہ اجازت لینے کا تکلف نہیں کیا گیا۔ پھر پرچہ لگا کہ پاکستان اس اتحاد کا حصہ ہے اور ہمارے سابق فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف اس فوجی اتحاد کی قیادت کے لئے سعودی عرب تشریف لے جا چکے ہیں۔ ہمیں خوشخبری دی گئی کہ جنرل راحیل شریف سعودی عرب اور ایران میں مفاہمت کا پل باندھنے کا خوشگوار ارادہ رکھتے ہیں۔ تصویر کے ان ٹکڑوں کو جوڑنے سے صرف ایک نتیجہ نکلتا ہے ۔یہ بڑے لوگوں اور بڑی طاقتوں کی باتیں ہیں۔ پاکستان کو صرف اس حقیقت پر غور کرنا چاہئے کہ ایران کے ساتھ ہماری 909کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد ہے۔ ایران میں اکثریتی مسلم فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں موجود ہے ۔ گزشتہ تیس برس میں فرقہ وارانہ تنائو اور فرقہ پرست تنظیموں میں باہم قتل و غارت گری کے باوجود پاکستان میں فرقہ وارانہ رواداری کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے۔ اگر مذہبی انتہا پسندی کو ختم کرنا ہے تو رواداری کی اس روایت کو مضبوط کرنا ہو گا۔
ایران کے ساتھ ہمارے دیرینہ تاریخی اور ثقافتی رشتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی ، آئینی اور معاشرتی روایت البتہ ایران سے کافی حد تک مختلف رہی ہے۔ 1979 ء میں انقلاب ایران کے بعد سے ایران کا سیاسی بندوبست مختلف ہوگیا۔ ایران کی ریاست سیکولر اصولوں کو تسلیم نہیں کرتی ۔ سیکولرازم کے بغیر حقیقی جمہوریت قائم نہیں ہو سکتی۔ ایران کی پارلیمنٹ قانون سازی کے ضمن میں معروف جمہوری اختیارات نہیں رکھتی۔ ایران کی حکومت اپنے شہریوں کی نجی زندگیوں میں مداخلت کی شہرت رکھتی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی ایرانی خواہش بھی کچھ ایسا راز نہیں لیکن یہ تمام خصوصیات تو ایران کی مخالف ریاستوں میں بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اور اب تو چار آزادیوں کے علمبردار فرینکلن روزویلٹ کے جانشین ٹرمپ نے بھی انسانی حقوق سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے۔ رہا کھٹکا نہ چوری کا، دعا دیتا ہوں رہزن کو۔
حالیہ مہینوں میں پاکستان اور ایران کے تعلقات میں کشیدگی آئی ہے۔ ایرانی فوج کے سربراہ کے جارحانہ بیان کی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ سرحد پار گولہ باری کی اطلاعات بھی مل رہی ہیں۔ پاکستان ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کی تکمیل میں حائل رکاوٹ کسی کو معلوم نہیں۔ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات حالیہ دو برس میں خراب سے خراب تر ہوئے ہیں۔ خطے کی بڑی طاقتیں افغانستان میں گہرے مفادات رکھتی ہیں اور پاکستان کے لئے افغانستان میں کسی بڑے کردار کی گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے۔ بھارت کے ساتھ ہماری کشیدگی کبھی ختم ہی نہیں ہوئی۔ وقفے وقفے سے ناخوشگوار واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں پاکستان کو کیا کرنا چاہئے؟۔ امریکا اور سعودی عرب کی دوستی انتہا پسندی یا دہشت گردی کے خلاف فکری یگانگت کا نتیجہ نہیں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب سے سیدھے اسرائیل جا رہے ہیں۔ نائن الیون کے انیس دہشت گردوں میں سے پندرہ کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ ان میں سے ایک بھی ایران یا پاکستان کا شہری نہیں تھا۔ اے صاحبان نظر، جمہوریت ، آزادی اور انسانی حقوق کی طرح ’انتہا پسندی‘ کو بھی عالمی مفادات میں استعمال ہونے والی ایک مبہم اصطلاح بنایا جا رہا ہے۔ ’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘۔ ہمیں ماننا چاہئے کہ انتہا پسندی سرد جنگ کے دوران اشتراکی بلاک کا مقابلہ کرنے کے لئے اختیار کی گئی سرمایہ دار بلاک کی پالیسیوں کا ناگزیر نتیجہ تھی۔ انتہا پسندی کا مال مسروقہ ایران یا کسی اور ملک کے دروازے پر رکھ چھوڑنے سے انتہا پسندی ختم نہیں ہو گی۔ پاکستان کم وسائل رکھنے والا ایک غریب ملک ہے۔ ہمارے پاس ایک سو دس ارب ڈالر نہیں ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ چوبی تلوار تھام کر اسلام آباد میں رقص فرمائیں۔ ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ تنوع پایا جاتا ہے اور ہمیں فرقہ وارانہ رواداری کی مدد سے اس تنوع کو پاکستان کی توانائی میں تبدیل کرنا چاہئے۔ ہماری جمہوریت اکثریت کے جبر کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان میں چین نے بہت بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ سی پیک کا منصوبہ محض راہداری کا معاملہ نہیں ۔ یہ منصوبہ داخلی اور خارجی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں کا تقاضا کرتا ہے۔ ایک ایسے مرحلے میں جب کم از کم تین ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات معمول پر نہیں ہیں ، ہمیں پوری توجہ اقتصادی ترقی پر دینی چاہئے۔ 1969 میں رباط کے مقام پر پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ تھوڑا سوچ لیجئے کہ کیا آدھی صدی میں اس پلیٹ فارم کے موعودہ مقاصد حاصل ہوئے؟ 41 ملکوں کے اس فوجی اتحاد سے بھی کچھ برآمد نہیں ہو گا۔ ہمیں اطمینان کا اظہار کرنا چاہئے کہ سعودی عرب میں ہونے والی کانفرنس میں وزیراعظم نواز شریف نمایاں نظر نہیں آئے۔ درحقیقت ہمارا مفاد اسی میں ہے کہ ہم اس اتحاد میں صرف اس حد تک شمولیت اختیار کریں جو ہمارے قومی مفادات کے لئے ضروری ہو۔ ہمیں ایران ، افغانستان اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہو سکتا ہے ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے دوست انتہا پسندی کے خلاف راگ الاپ کر کچھ مفاد حاصل کر سکیں ۔ پاکستان کا مفاد حقیقی معنوں میں انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے میں ہے ۔

.
تازہ ترین