• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے پچھلے دو دن سے قرآن مجید کی سورۃ’’الفیل‘‘ بہت یاد آرہی ہے۔ اور یاد آرہی ہیں ابابیلیں، جنہوں نے کعبہ پر حملہ کرنے والے اصحاب فیل (ہاتھی والوں) پر کنکریاں برسا کر انہیں جانوروں کا کھایا ہوا بھوسہ بنا دیا تھا۔ اس طرح ہمارے لئے طیراً ابابیل (پرندے) مزاحمت اور مدافعت کی علامت بن گئے ہیں۔ جب ایوب خاں کی آمریت اپنے عروج پر تھی تو میں نے ’’طیراً ابابیل‘‘ کے عنوان سے ایک افسانہ لکھا تھا۔ میرے لئے اس وقت مزاحمت کا یہی طریقہ تھا۔ اچھا، تو یہ سورۃ اور یہ پرندے مجھے اب کیوں یاد آ رہے ہیں؟ اس کے لئے آپ دو دن کے اخبار، اور ان اخباروں میں چھپنے والی بین الاقوامی خبریں پڑھ لیجئے۔ میں اس سے زیادہ اور کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ چلیے، اس پوری سورۃ کا وہ ترجمہ بھی پڑھ لیجئے جو ہمارے مرحوم انجینئر دوست، اور اردو، عربی، انگریزی اور جرمن زبانوں کے جید عالم اور صاحب طرز ادیب محمد کاظم نے سلیس اردو میں کیا ہے۔
’’تم نے دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا۔ کیا اس نے ان کی تدبیر کو بے کار نہیں کیا۔ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ بھیج دیئے۔ جو ان پر کنکر کی پتھریاں پھینکتے تھے۔ تو ان کا یہ حال کر دیا جیسے جانوروں کا کھایا ہوا بھوسہ‘‘
سید محمد کاظم نے (جو اپنے آپ کو سید کہلانا پسند نہیں کرتے تھے) اپنی آخری عمر میں قرآن مجید کا آج کی سلیس اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ چند سال پہلے یہ ترجمہ نہایت ہی دیدہ زیب انداز میں ان کی زندگی میں ہی چھپ گیا تھا۔ لیکن اس سورۃ کے ترجمے میں انہوں نے صرف پرندے لکھا ہے، ابابیل نہیں لکھا۔ اس کی وجہ میری سمجھ میں تو نہیں آتی۔ اگر وہ حیات ہوتے تو میں ان سے پوچھ لیتا۔ لیکن شاید ڈاکٹر خورشید رضوی اس کی وجہ بتا سکیں۔ وہ بھی قدیم اور جدید عربی کے جید عالم ہیں۔
اب یہاں میں جو بچ بچا کر بات کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کل سوشل میڈیا کے خلاف حکومت نے تابڑ توڑ مہم چلا رکھی ہے۔ اس سلسلے میں کئی آدمی گرفتار اور پھر رہا بھی کئے جا چکے ہیں۔ اس لئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں سوشل میڈیا کے ساتھ پرنٹ میڈیا، یعنی اخباروں پر بھی اسی طرح توجہ نہ دی جانے لگے۔ آپ نے وہ حکایت تو سنی ہو گی کہ کسی جگہ اونٹ پکڑے جا رہے تھے۔ وہاں اونٹوں کے ساتھ ایک لومڑی بھی بھاگی چلی جا رہی تھی۔ لوگوں نے لومڑی سے پوچھا ’’تم کیوں بھاگ رہی ہو؟‘‘ تو اس نے جواب دیا ’’کیا خبر کہیں وہ یہ نہ کہہ دیں کہ یہ بھی اونٹ کا بچہ ہے‘‘ تو صاحب میں اونٹ کا بچہ بننا نہیں چاہتا۔ اسی لئے میں سعودی عرب کے شہر ریاض میں ہونے والے امریکہ اور مسلم ملکوں کے اس اجتماع کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہنا چاہتا جہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی عرب کے شاہ سلیمان نے خطاب کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں دہشت گردی پھیلانے اور دہشت گردوں کی مدد کرنے والا اگر کوئی ملک ہے تو وہ ایران ہے۔ اور فلسطینی عوام کے حامی اور اسرائیل کے دشمن گروہ حزب اللہ اور حماس دہشت گرد تنظیمیں ہیں۔ ان کے خلاف اب باقاعدہ ایک ادارہ بنایا جائے گا۔ اس ادارے کو امریکی سرپرستی حاصل ہو گی۔ ’’عرب نیٹو‘‘ بنانے کی تیاریاں پہلے ہی کی جا چکی ہیں اور ہم اس میں برابر کے شریک ہیں۔ مگر میں یہ باتیں نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے تو فکر یہ ہے کہ ضرب عضب اور ردالفساد کے بعد بھی بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں جو دھماکے ہو رہے ہیں ان کے ذمہ دار کون ہیں؟ بلکہ میں تو یہ جاننا چاہوں گا کہ ان کے سہولت کار اور مددگار کون ہیں؟ بلوچستان میں ہزارہ قبیلے کے افراد کا انفرادی اور اجتماعی طور پر جو قتل عام کیا جاتا ہے اس کا گناہ کس کے سر ہے؟ ہمارے بزرگوں کی درگاہوں اور امام بارگاہوں پر جو حملے ہوتے ہیں ان میں کون عناصر ملوث ہیں؟ اور ہاں، اسلام آباد کی لال مسجد سے جو آوازیں اٹھتی رہتی ہیں ان کی حوصلہ افزائی کون کر رہا ہے؟۔ چلئے، حوصلہ افزائی کی بات جانے دیجئے، یہ کہہ لیجئے کہ ان سے چشم پوشی کون کر رہا ہے؟ اور کس کے ڈر سے کر رہا ہے؟ لال مسجد کے ساتھ ایک مدرسے نے پاکستان بک فائونڈیشن کی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے مگر کسی کی مجال نہیں ہے کہ اس کی طرف اشارہ بھی کر سکے۔ احمد فراز چیختے چیختے مر گیا کہ یہ زمین بچوں کی لائبریری کے لئے حاصل کی گئی ہے مگر اس کی کون سنتا تھا۔ اور اب بھی کس کی مجال ہے کہ اس کا ذکر بھی کر دے۔ اور پھر بہت بڑا سوال، کہ ہمارے پورے معاشرے کے ساتھ ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں جو تنگ نظری اور عدم برداشت نے دور دور جڑیں پکڑ لی ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے؟ عبدالولی خاں یونیورسٹی میں جو ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ طالب علموں کے ایک گروہ نے نوجوان مشال خاں کو جس وحشیانہ انداز میں ’’مثلہ‘‘ بنایا ایسا تو وحشی درندے بھی نہیں کرتے۔ (مثلہ کرنا، یعنی انسان کے ٹکڑے ٹکرے کرنا اسلام میں گناہ کبیرہ ہے) پھر پنجاب یونیورسٹی میں خیبر پختونخوا کے طلبہ کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ کس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے ؟ کیا وہ ہمارے معاشرے کی نمائندگی نہیں کرتا؟ ایسے بہت سے سوال ہیں بلکہ سوال ہی سوال ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم ان سوالوں کے جواب نہیں جانتے۔ مگر ڈرتے ہیں زبان پر لاتے۔ اور شاید آئندہ ہم ان سوالوں کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی ڈریں گے۔ اب تو ہم نے دھماکوں اور ان دھماکوں میں مارے جانے والے معصوم لوگوں کی خبریں بھی اندر کے صفحوں پر چھاپنا شروع کر دی ہیں۔ چلیے، اب یہ بھی دیکھے لیتے ہیں کہ ’’عرب نیٹو‘‘ (اسے ادبی اصطلاح میں کیا کہتے ہیں؟ کہاں عرب اور کہاں نیٹو؟) اور دہشت گردی کے خلاف امریکی سرپرستی میں بنائے جانے والے ادارے کے قیام کے بعد مسلم دنیا میں حالات کیا کروٹ لیتے ہیں؟ میں تو اس پر بھی کسی قسم کی قیاس آرائی کرتے ڈرتا ہوں۔ بلکہ اب تک میں نے جو لکھ دیا ہے وہ بھی بڑی ہمت کر کے لکھا ہے اور اوپر میں نے سورۃ الفیل کا جو حوالہ دیا ہے وہ بھی ڈرتے ڈرتے ہی دیا ہے۔

.
تازہ ترین