• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز میں معاشی انقلاب لانے کی باتیں ہورہی ہیں، زراعت، انڈسٹری، آئی ٹی، ٹیلے کام اور سیکورٹی مینجمنٹ سمیت تمام شعبوں میں اصلاحات کے ساتھ بےمثال ترقی کے راستوں کا تعین کیا جارہا ہے، توانائی کی وافر مقدار، روزگار کے لامحدود مواقعوں اور خوشحال مستقبل کی نوید سنائی جارہی ہے، اللہ کرے، ہمارے خوابوں اور ارادوں کو کسی اپنے یا پرائے دشمن کی نظر نہ لگے، پاک چین اقتصادی راہداری کو حقیقت میں بدلنے کے سفر میں ایشیا، یورپ اور افریقہ کے 129 ملک بلواسطہ یا بلاواسطہ حصہ بننے کا ارادہ کر چکے ہیں اور 15/20 برس میں ایک ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی توقع ظاہر کی جارہی ہے، پاکستان اس کا گیٹ وے ہوگا، ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کے منصوبے میں شرکت کے خواہشمند یہ ممالک چینی صدر شی جن پنگ کی بلائی گئی کانفرنس میں شریک ہوئے اور اپنے مقاصد اور مفادات کے تحت منصوبوں کی تیاریوں میں اب مصروف ہیں، وزیراعظم نوازشریف کی رہنمائی میں ہماری سیاسی قیادت بھی کانفرنس میں پہنچی، افریقہ کے غریب اور امریکہ سمیت چوٹی کے امیر ملکوں کے باہم نشست ہونے کا ماحول دیکھا، ملاقاتیں بھی کیں کیا طے ہوا، عوام کی زندگی کو سنوارنے کے لئے کیا پیش بندی ہوگی، انہیں کیا بتانا ہے، کیا چھپانا ہے؟ اس پر فیصلہ تو کجا سوچ بچار کا عمل بھی شاید ابھی شروع نہیں ہوسکا۔۔۔!
پاکستان خوش قسمتی سے ایسے خطے اور محل وقوع میں واقع ہے جو کئی ملکوں ہی نہیں براعظموں کو ملانے کا سینٹرل پوائنٹ اور ہر لحاظ سے اہمیت کا حامل کلیدی ملک ہے لیکن بدقسمتی سے اپنی بے سمت خارجہ پالیسیوں کے باعث کئی دہائیوں سے ترقی تو ایک طرف ابھی تک اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے، پاکستان کے چار میں سے دو سرحدی ہمسایوں (بھارت، افغانستان) کے ساتھ کشیدہ تعلقات اور اب ایران کیساتھ تعلقات میں سردمہری نے ہمارے امن و سلامتی اور معاشی حالات کو متاثر کیا ہے۔ ضروری ہے کہ چوتھے ہمسائے چین کے ساتھ مزید اچھے تعلقات بنائے جائیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہر قسم کے وسائل (زراعت، معدنیات، قدرتی ذخائر اور انسانی وسائل) سے مالا مال وطن عزیز ترقی کے سفر کی اقتصادی شاہراہ کی تعمیر میں اپنے مضبوط ہاتھ پائوں سے تعمیر کا حصہ بنتا، لیکن منظر واضح ہے کہ سب نعمتیں اور بہت کچھ ہونے کے باوجود ہم نے امداد کا سہارا لیا۔ چین جیسے مخلص دوست کی ہمت کی داد دینی چاہئے کہ ہائی سیکورٹی رسک ایریا میں (55/60) ارب ڈالر کے منصوبے شروع کرنے جا رہا ہے، اس نے اپنی بقا کی جنگ لڑنے والے ملک سے ہاتھ ہی نہیں ملایا بلکہ اس کو گلے بھی لگا رہا ہے۔
یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ایک طرف چینی کمپنیاں تیزی سے پاکستان میں نئے نئے منصوبوں میں مصروف ہیں اور ہمارے متعلقہ معزز وزراء محض یہ اخباری بیانات دے رہے ہیں کہ ابھی کچھ فائنل نہیں، جیسے کچھ طے پا جائے گا توعوام کو بتا دیا جائے گا؟ عوام انگشت بدندان ہیں کہ اگر ابھی کچھ طے نہیں ہوا تو یہ اورنج ٹرین، گرین لائن، ساہیوال کول انرجی سمیت دیگر کئی اہم منصوبے کیسے چل رہے ہیں؟ سب کچھ ہو بھی رہا ہے اور ابھی کچھ طے بھی نہیں؟ چین دنیا کی دوسری ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے اور نمبرون کو چیلنج کر رہی ہے ایسے میں بھارت اس کی راہ میں بڑی رکاوٹ اور چیلنج ہے، بھارت کی ہٹ دھری اور امریکہ نوازی بیلٹ اینڈ روڈ کانفرنس کے کھلم کھلا بائیکاٹ ومخالفت سے عیاں ہو چکی ہے، بھارت سے سرحدی تنازعات سمیت دیگر خدشات کے بعد بلاشبہ چین اور پاکستان کو ایک دوسرے پر انحصار کے سوا دوسرا راستہ نہیں، لیکن عوام جاننا چاہتے ہیں کہ ہم اپنی ذمہ داریوں، ملکی وعالمی تقاضوں اور چینلجز کیلئے کتنے باخبر اور تیار ہیں؟ کہا جارہا ہے کہ توانائی کے اربوں کے منصوبے لگائے جا رہے ہیں تو یہ تو بتا دیا جائے کہ ہوا، پانی، کوئلے اور سورج سے بننے والی بجلی کس نرخ پر ملے گی؟ ذخائر ہمارے ہونگے لیکن یہ منصوبے ملکیت کس کی ہونگے اور بجلی کون بیچے گا اور کہاں کہاں بکے گی؟
عوام جاننا چاہتے ہیں کہ انڈسٹریل زون بنیں گے اس میں کون کون سے کارخانے، ملز اور فیکٹریاں ہوں گے؟ کپاس وکاٹن سے مالا مال ملک کی مقامی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا مستقبل کیا ہے؟ خوش آئند ہے کہ زراعت کے شعبے میں ریفارمز کی جائیں گی لیکن مقامی کاشتکار اور کھاد سمیت اس شعبے سے وابستہ دیگر افراد کا کردار کیا ہوگا ؟پلاسٹک کےچاول دانے کی جھوٹی سچی کہانی تو پہلے ہی منظرعام پرآچکی ہے اب اگر گندم کی ایک روٹی سو روٹیوں میں بدل بھی جائے اور اگر وہ ہو پلاسٹک کی تو اس کو کون کھائے گا؟ اس منصوبے کے تحت بنائے گئے انڈسٹریل زونز اور نیلم جہلم اور ساہیوال کول توانائی منصوبوں میں پاکستانی مزدوروں کی کھپت کتنی ہوگی؟ چین میں مزدور کی فی کس مزدوری 1500/2000 ہزار ہے جبکہ پاکستانی مزدور اب بھی 500 روپے میں مل جاتا ہے تو سوال ہے کہ فوقیت کس مزدور کو دی جائے گی؟ پاکستان میں امن وامان کی جو صورت حال ہے سب کےعلم میں ہے، ہر گلی، محلے، دفاتر اور گھروں میں سیکورٹی کیمرے نصب ہیں یقیناً ان منصوبوں پر بھی سیکورٹی گیجٹس لگائے جائیں گے لیکن یہ تو طے کر کے بتا دیا جائے کہ سروئیلنس اور کسی بھی خطرے سے نمٹنے کا کلی اختیار کس کے پاس ہوگا؟ راہداری کے منصوبوں کی سیکورٹی کے نظام صرف پاکستان میں قائم کئے گئے جو خصوصی سیکورٹی ڈویژن کی ذمہ داری ہوگی یا نہیں؟ یہ بھی واضح ہونا ضروری ہے کہ چین کے بنکوں سے بھاری قرضوں کی شرح سود اور دیگر شرائط کیا ہیں؟ کہا جا رہا ہے کہ چین کے باشندے پاکستان ویزہ کی شرط سے متثنیٰ ہوں گے تاہم پاکستانیوں کو موجودہ طریقہ کار کی طرح چین کا ویزہ بدستور لازمی ہوگا؟
عام عوام کا عام سا سوال ہے بات فائدے یا نقصان کی نہیں۔ (شفافیت) کی ہے، یہ کسی ایک ذات، جماعت یا دو فریقین میں باہمی رضامندی کا سادہ سا معاملہ نہیں، یہ پاکستان ہی نہیں خطے سمیت یورپ، ایشیا اور افریقہ کی قسمت سنوارنے کا گیم چینجر تاریخی منصوبہ ہے، ہم توانائی کی قلت کا شکار ہیں اور اس کے حصول کے لئے ہمیں ہر کوشش کرنا چاہئے لیکن اس کی بھاری قیمت کا بوجھ آنے والی نسل پر لادنے کی بجائے ہمیں ایک باشعور، غیرت مند اور دوراندیش قوم کی طرح بھرپور ہمت اور طاقت سے قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھنا ضروری ہے۔ ہمارے پاس چولہا جلانے کے لئے صرف آگ ہی تو نہیں، کھانے اور پینے کے تمام لوازمات تو ہمارے پاس ہیں، ہمیں شکوک وشبہات کا شکار ہونا ہے نہ کسی کو ہونے دینا ہے، میرے ملک کی اپنی اقدار ہیں، روایات ہیں، معاشرتی تقاضے اور جذبات وخیالات ہیں اور ان کی کوئی قیمت کوئی نہیں لگا سکتا اور کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ہمیں تمام مفادات سے بالاتر ہونا چاہئے، ذہن بار بار سوچتا ہے کہ گزشتہ تین چار برسوں میں اقتصادی راہداری کے حوالے سے آخر آپ نے بھی تو کوئی منصوبہ بندی یا پیش بندی کی ہوگی، کوئی ڈاکومنٹس یا پالیسی تیار کی ہوگی اور اگر یہ سب ملک اور عوام کے مفاد میں ہے تو اس کو ان سے شئیر کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ پاکستان کا سب سے طاقتور اور عوامی نمائندہ ادارہ پارلیمنٹ موجود ہےتمام حقائق پر مقدس ایوان کو ہی اعتماد میں لے لیا جائے، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وطن عزیز پھر کسی نظریہ ضرورت کا متحمل نہیں ہوسکتا، اقتصادی راہداری کا یہ منصوبہ ایٹمی راز ہے نہ کوئی آبدوزوں کا دفاعی وحساس معاہدہ، نہ ہی کوئی نیا خفیہ ورلڈ آرڈر، یہ سیدھا سادھا ترقی و معاشی خوشحالی کا سودا ہے کہ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے، اس کو جتنا جلدی ممکن ہوعام کر دیا جائے تا کہ دشمن اپنے عزائم میں ناکام و نامراد ہو اور پاک چین لازوال دوستی کے پاک رشتےمیں کوئی امر رکاوٹ نہ بن سکے…!

.
تازہ ترین