• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ سب نے الیکٹرانک میڈیا پر بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را ‘‘کے ایجنٹ کل بھوشن کا اقبالی بیان سنا ہوگا جس میں اس نے اقرار کیاہے کہ وہ انڈین نیوی کا حاضر سروس ملازم ہے اور اپنی خفیہ ایجنسی را کی طرف سے پاکستان میں بدامنی، دھماکوں، دہشتگردی اور دیگر پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے ، الیکٹرانک میڈیا پر کل بھوشن کے اقبالی بیان کے دوران آپ لوگوں نے یہ بھی نوٹ کیا ہوگا کہ کل بھوش کا چہرہ بڑا فریش دکھائی دے رہاہے اس نے باقاعدہ شیو کررکھی ہے اور صاف اور اجلے کپڑے بھی پہن رکھے ہیں اقبالی بیان کے دوران ایسی فوٹیج بھی سامنے آئی ہیں جس میں کل بھوشن مسکرا بھی رہاہے ، عموماً ایسے الزامات میں گرفتار دشمنوں سے اصل بات اگلوانے کیلئے ایسی درگت بنائی جاتی ہے کہ کئی روز تک وہ بات کرنے کے قابل نہیں ہوتا اگر بات کر بھی لے تو اس کا چہرہ اس تشدد کی غمازی کررہا ہوتا ہے کہ اس کو کئی راتیں جگا کر رکھا گیا ہے ، یا اس کو بھوکاپیاسا رکھ کر اس کو اذیت دی گئی ہے یا پھر اس پر وہ تشدد کیا گیا ہے کہ درد اور کرب کی لکیریں چہرے سے عیاں ہوتی ہیں، کل بھوشن نے بڑی روانی اور کھلے الفاظ میں یہ اقبالی بیان دیاہے کہ میرا نام کل بھوشن یادیو ہے میں انڈین نیوی کا حاضرسروس افسر ہوں، میرا نمبر 41558ہے ، میرا خفیہ نام حسین مبارک پٹیل ہے اور یہ نام میں نے بھارتی ایجنسی کیلئے پاکستان میں کام کرنے کیلئے اپنایا ہے ، میںنے نیشنل ڈیفنس اکیڈمی 1987ء میں جوائن کی تھی اور جنوری 1991میں انڈین نیوی کو بطور کمیشن افسر جوائن کیا اور دسمبر2001ء تک خدمات سرانجام دیتا رہا، پھر میں نے بھارتی خفیہ ایجنسی کیلئے بطور جاسوس کام کرنا شروع کردیا، میں نے اپنی 14سال نیوی سروس مکمل کرنے کے بعد 2003میں بطور آپریشن شروع کردیا اور چاہ بہار ایران میں ایک کاروبار سیٹ کیا تاکہ بطورجاسوس اوجھل رہوں پھر مجھے کراچی اور بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کیلئے بھارت سے ہدایات ملیں جس میں یہ بھی شامل تھا کہ میں کراچی کے امن کو تہہ و بالا کروں میں را کے جوائنٹ سیکرٹری انیل کمار گپتا کے ماتحت ہوں ، میرا یہ کام بھی تھا کہ بلوچستان میں نوجوانوں کو مس گائیڈ کرکے انہیں پاکستان کے خلاف استعمال کروں اپنے جرائم تسلیم کرنے کے بعد کل بھوشن کے خلاف باقاعدہ مقدمہ چلایاجاتا ہے اور اس کے اقبالی بیان اور شواہد کی روشنی میں اسے پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے بھارت اس سزا کے خلاف عالمی عدالت میں چلاجاتا ہے اور ایک دہشتگرد جاسوس کو پاکستانی عدالت سے سزا کے خلاف اپیل کرتا ہے اس عدالت سے کیا فیصلہ آیا ہے یا مستقبل میں آنا ہے،میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ میں تو اپنے قارئین کو بھارت کا اصل چہرہ دکھانا چاہتا ہوں ابھی چند ہفتے قبل آپ نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھی ہوگی جس میں بھارتی فوجی کشمیری نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر انہیں پاکستان کے خلاف نعرے بازی پر مجبور کررہے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اس اوچھی حرکت سے ان نوجوانوں کے دلوں سے پاکستان کی محبت کو نکالنے میں کامیاب ہوجائینگے لیکن میرا مقصد یہ بھی نہیں کہ بھارت کی ان گھٹیا حرکتوں کا ذکر کروں جو وہ کشمیر کی آزادی کے متوالوں کے خلاف روا رکھے ہوئے ہے، میں آج چند سطور دھرانا چاہتا ہوں جو پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ جی ہاں واہگہ بارڈر کے ذریعے ایک قیدی پاکستان میں داخل ہوتا ہے ، نیم پاگل، ہڈیوں کا ڈھانچہ جس کی زبان بھی کٹی ہوئی ہے وہ بھارت میں چالیس سال تک قید رہنے کے بعد رہائی حاصل کرکے پاکستان داخل ہوتا ہے، اشاروں اور اپنی ٹوٹی پھوٹی تحریروں سے وہ راستہ پوچھتا آزاد کشمیر رجمنٹ کے ایک اعلیٰ فوجی افسر کے سامنے پیش ہوتا ہے اور اپنا فونی نمبر 335139لکھ کر بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ میں دشمن کی قید سے رہا ہوکر اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہوں میرے لئے کیا حکم ہے ، تھوڑی تحقیق کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص سپاہی مقبول حسین ہے جو 1965ء کی جنگ میںشدید زخمی ہوکر بھارت کا قیدی بن گیا تھا لیکن بھارت نے تمام تر بین الاقوامی قوانین اور اخلاقی جواز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کو اس کی گرفتاری کی خبر نہ دی اور نہ ہی قیدیوں کی باہمی رہائی میں اسے رہا کیا اس لئے پاکستانی فوج نے اس لاپتہ سپاہی مقبول حسین کو شہید تصور کرلیا لیکن 40سال بعد معلوم ہوا کہ سپاہی مقبول حسین نہ صرف زندہ ہے بلکہ بھارت کے ظلم و تشدد کا نشانہ بن بن کر نیم پاگل اور ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا ہے اور پاکستان کے خلاف زبان نہ کھولنے اورہر تشدد کے بعد پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے والے اس غازی سپاہی مقبول حسین پر ظلم کی انتہاء کرتے ہوئے اس کی زبان کاٹ دی جاتی ہے ساری قید میں اسے 4x4فٹ کی کوٹھڑی میں رکھا جاتا ہے اس پر کتے چھوڑے جاتے ہیں اس کی زبان کاٹ دی جاتی ہے، سپاہی مقبول حسین پر ڈھائے جانے والے اس ظلم کے خلاف ہم کسی عدالت میں نہیں گئے بلکہ سپاہی مقبول حسین جس کے والدین اور ساری ہم عصر نسل تقریباً پاکستان میں وفات پاچکی تھی ہمارے لئے ہماری قوم کیلئے جہاں ایک حیات ہے وہاں بھارت کے مکروہ چہرے کو عیاں کرنے والی ایک داستان بھی ہے جس سے اب ہمیں عالمی عدالت کو کل بھوشن کے خلاف دلائل دیتے ہوئے ضرور آگاہ کرنا چاہیے، ایک بھارتی جاسوس کل بھوشن اور بھارت کے ظلم کا شکار ہونے والے پاکستانی سپوت میں کیا فرق ہے اور دونوں ممالک کا اخلاقی سلوک کیا ہے ۔

.
تازہ ترین