• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہترین توقعات کے ساتھ بدترین اندیشہ بھی پیش نظر رکھیں

امریکہ کے نئے صدر مسٹر ٹرمپ کے پہلے غیر ملکی دورے کے دوران ایران کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگر ایران امن اور دوستی کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرے تو تمام ممالک ا سے قومی برداری میں تنہا ہوجانے کی سزا سے گزرنے پر مجبور کریں۔ امن اور دوستی چاہنے والے ممالک کو اس سلسلے میں کچھ زیادہ مشکل بھی پیش آئے گی کیونکہ امن اور دوستی چاہنے والے ملکوں کی برادری کے اندر اگر کوئی ملک رکاوٹ بننے کی کوشش کرتا ہے تو وہ خود تنہا ہوجاتا ہے اور اسے تنہائی کے عذاب سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ صرف آدمی ہی نہیں ہوتا جو وقت سے زیادہ آگے سوچنے یا وقت سے بہت زیادہ پیچھے رہ جانے کی وجہ سے عالمی برادری میں تنہا ہو کر رہ جاتا ہے۔ ممالک اور اقوام بھی تنہائی کے تجربے سے گزرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور یہ تجربہ بہت مشکل ہوتا ہے۔ انسانوں کے لئے مشکل بن سکتا ہے تو قوموں کے لئے مشکل آزمائشیں برداشت کرنے والا بن جاتا ہے۔صدر ٹرمپ نے سعودی عرب میں کہا کہ وہ امن اور دوستی کا پیغام لے کر آئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انتہا پسندی کے خلاف لڑائی کسی مذہب کے خلاف نہیں ہوسکتی کیونکہ انتہا پسندی کسی انسانی زندگی کے ضابطے فراہم کرنے والے دین یا مذہب کی تعلیمات میں نہیں ہوسکتی ۔ انتہا پسندی ہر دین اور مذہب کے مقاصد کو نقصان پہنچاتی ہے۔امریکی صدر نے کہا کہ امت مسلمہ شدت پسندی اور تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لئے آگے بڑھے اس رجحان کو ختم کرکے رکھ دے تاکہ اقوام عالم امن و انصاف کی فضا میں سانس لے سکیں اور اس فضا میں انسانیت کی بہتری اور ترقی کی راہیں تلاش کرکے ان راہوں پر چلنے اور دوسری قوموں کو چلانے میں کامیابی حاصل کرسکیں۔ انہوں نے فرمایا کہ ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمان واشنگٹن کے ساتھ ہیں اور ان کو دنیا بھر کے تمام امن اور انصاف پسند مسلمانوں کا تعاون اور ہمدردی حاصل ہوگی۔واشنگٹن کے ساتھ ہم خیال اور ہمدردی رکھنے والوں میں پاکستان بھی شامل ہے اور پاکستان نے ہم خیالی اور ہمدردی کے معاملات میں بہت سے شدید نقصانات بھی اٹھائے ہیں۔ اپنے آدھے سے زیادہ ملک سے علیحدگی کو بھی برداشت کیا ہے، ہزاروں لاکھوں زندگیوں کی قربانی بھی دی ہے اور اس سلسلے میں مزید قربانیاں برداشت کرنے کی شاید ہمت بھی رکھتا ہے اور اپنی قربانیوں کے بدلے میں قومی اور ملکی سطح پر مثبت فائدے بھی اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ وقت کے تجربات نے پاکستان کو یہ ٹھوس سبق فراہم کیا ہے کہ وہ دنیا کی بڑی سپر طاقتوں کے ساتھ اپنی دوستی ا ور ہمدردی میں اپنا فائدہ بھی پیش نظر رکھیں۔ وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ ہو یا سپر پاور کے ساتھ دوستی اور ہمدردی کا معاملہ ہو پاکستان اور پاکستانیوں کے اصل مسائل کے حل کو ملحوظ خاطر رکھنا سب سے زیادہ مقدم ہونا چاہئے۔ بہترین کی توقع رکھنا بھی ضروری ہے مگر بدترین نتائج کا اندیشہ بھی دامن گیر رہنا چاہئے۔

.
تازہ ترین