• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں اگر آپ ایک ایسی باعزت زندگی گزارنا چاہتے ہیں جس میں سرکار کی ذلت آپ کو نہ سہنی پڑے تو اس کا بہترین حل یہ ہے کہ خود سرکار میں شامل ہو جاؤ، طریقہ اس کا یہ ہے کہ سی ایس ایس کا امتحان دو اور اعلیٰ سرکاری ملازمت حاصل کرلو۔ Central Superior Servicesکا یہ امتحان ملک میں سفارش اور کرپشن کے تمام تر کلچر کے باوجود اب تک اِن آلائشوں سے پاک ہے اور اس امتحان کی شفافیت پر سوال نہیں اٹھایا جاتا۔ امسال سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے والوں کی تعداد گزشتہ برسوں کے مقابلے میں خاصی کم تھی سو اب کی بار یہ سوال اٹھا کہ کیا قابل اور باصلاحیت نوجوانوں نے سول سروس کا رُخ کرنا چھوڑ دیا ہے؟ ہاں یا ناں میں اس کا جواب دینا مشکل ہے۔ 2003سے 2012تک حکومت نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو سی ایس ایس کے ذریعے جتنی آسامیاں پُر کرنے کے لئے کہا، اِن دس برسوں میں اُتنے امیدوار امتحان پاس کرنے کے بعد نہیں مل سکے۔ اسی طرح نوّے کی دہائی کے دس برسوں کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ گریڈ انیس اور بیس کے ڈی ایم جی افسران میں سے پچیس فیصد ریگولر سروس میں ہی نہیں، مثلاً 1994کے بیچ میں سے صرف تیس فیصد، 1995کے بیچ میں سے چالیس فیصد، 1996کے بیچ میں سے پچاس فیصد، 1997کے بیچ میں سے اسّی فیصد اور 1998کے بیچ میں سے فقط ساٹھ فیصد باقاعدہ نوکریوں پر ہیں، باقی چھٹیوں پر ہیں، غیر ملکی اداروں میں کام کر رہے ہیں یا ملازمت ہی چھوڑ چکے ہیں۔
تنخواہ کا موازنہ بھی کر لیں۔ 1849میں ایک سرکاری سکول کے استاد کی تنخواہ تین روپے ماہانہ ہوا کرتی تھی، کمشنر بہادر ستائیس سو پچاس روپے ماہوار تنخواہ وصول پاتے تھے، سونے کا اُس زمانے میں جو بھاؤ تھا اُس سے اِن تنخواہوں کی اصل قدر معلوم کی جا سکتی ہے اور اگر یہ ممکن نہیں تو 1925میں دس گرام سونے کے بھاؤ سے موازنہ کر لیں جو اٹھارہ روپے کے قریب تھا، جمع تقسیم کرکے طبیعت شاد ہو جائے گی۔1973میں حکومت نے تمام گریڈز کی تنخواہ برابر کر دی، یہ فیصلہ سیاسی اور انتظامی دونوں لحاظ سے آسان تھا سو اسے اپنا لیا گیا، اب گریڈ بیس کے ہیڈ ماسٹر کی تنخواہ بھی وہی ہے جو گریڈ بیس کے کمشنر کی ہے۔ 1972سے لے کر اب تک اگر ہم گریڈ ایک اور گریڈ بائیس کی تنخواہ میں بڑھوتری کا موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ حقیقی معنوں میں گریڈ ایک کی تنخواہ میں اضافہ ہوا ہے جبکہ گریڈ بائیس کی تنخواہ میں کمی ہوئی۔ یہ بات چونکہ ہضم کرنی مشکل ہے اس لئے آسانی کے لئے مثال حاضر ہے، 1972میں گریڈ ایک کے ملازم کی تنخواہ اگر ڈیڑھ سو روپے تھی تو 2013میں یہ تنخواہ (1972کے روپے کی قدر کے مطابق) تین سو روپے ہو گئی جبکہ گریڈ بائیس کا افسر 1972میں اگر تین ہزار روپے مہینہ تنخواہ پاتا تھا تو 2013میں بھی اس کی تنخواہ وہی رہی (1972میں روپے کی قدر کے مطابق)۔ آج کل گریڈ انیس کے ایک افسر کی ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ روپے سے کم ہے، اب اگر وہ شریف آدمی بچے دو ہی اچھے کی پالیسی پر کاربند ہو، شادی بیاہ پر پانچ سو روپے سلامی سے کام چلائے، بڑی عید کی بجائے چھوٹی عید پر اپنی قربانی دے، پرولتاری بن کر بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھائے، شاکا ہاری بن کر کھانے کا خرچ گھٹائے، بیوی بیمار ہو تو سرکاری اسپتال میں علاج کروائے، گرمیوں میں ایئر کنڈیشن اور سردیوں میں ہیٹر سے یوں پرہیز کرے جیسے پاکستانی لوگ قانون سے پرہیز کرتے ہیں تو بھی شاید وہ اِس تنخواہ میں گزارا نہ کر پائے۔ لطیفہ اس ضمن میں یہ ہے کہ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ سرکاری افسر کو تنخواہ ایک اضافی سہولت کے طور پر ملتی ہے کیونکہ بجلی کے بِل سے لے کر پرائیویٹ ڈاکٹر کی فیس تک سرکاری افسر کا سب کچھ ’’مفت‘‘ ہوتا ہے۔
امتحان کے طریقہ کار میں بھی ایک سقم ہے۔ بھارت میں سول سروس کے امتحان کا اہل ہونے کے لئے ایک اسکریننگ ٹیسٹ پاس کرنا پڑتا ہے، اس ٹیسٹ کا فائدہ یہ ہے کہ اگر ایک لاکھ نوجوان امتحان دینا چاہتے ہیں تو اس چھاننی کے بعد دس ہزار رہ جاتے ہیں جس کے بعد تحریری امتحان ہوتا ہے اور اس میں کامیابی کے بعد انٹرویو۔ ہمارے ہاں امیدواروں کی چھانٹی کا امتحان نہیں ہوتا، نوجوان براہ راست تحریری امتحان دیتے ہیں، کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ کوئی لازمی پرچہ مشکل بن جاتا ہے یا اس کا ممتحن سخت ہوتا ہے جس سے کسی ایک مضمون میں امیدوار زیادہ تعداد میں فیل ہو جاتے ہیں اور یوں پورا نتیجہ اس سے متاثر ہو جاتا ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ سی ایس ایس کی جانب قابل اور اہل امیدوار اب رجوع نہیں کرتے۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رُخ ہے، دوسرا رُخ یہ ہے کہ آج کل نجی شعبے میں ملازمتوں کا کال ہے، بہترین یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نوجوان کی شروعات بھی پچاس ہزار ماہانہ سے زیاد ہ نہیں ہو پاتی، جاب سیکورٹی کا عالم یہ ہے کہ نوکری سے فارغ کرنے سے پہلے ایک ای میل کر دی جاتی ہے کہ برخوردار صبح دفتر آنے کی زحمت نہ کرنا___ان حالات میں سرکاری ملازمت اب بھی کافی پُرکشش ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ گاڑی، مکان اور دیگر مراعات کے علاوہ وہ اختیار بھی ملتا ہے جس کا شمار تنخواہ میں نہیں کیا جا سکتا، لیکن قلیل تنخواہ کے ساتھ سرکاری ملازمت کی یہ کشش ایک خطرناک رجحان کو بھی جنم دیتی ہے جسے عرف عام میں کرپشن کہتے ہیں۔
سول سروس کا امتحان مقابلے کا امتحان ہے، اس امتحان کو پاس کرنے کے بعد نوجوان اس سروس کا حصہ بن جاتے ہیں جسے ’’ایلیٹ سروس‘‘ کہا جاتا تھا، اس کا اپنا ایک وقار ہے، ایک آن ہے جو تاریخی طور پر اس سے وابستہ ہے، اس ملازمت کا وقار بحال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے قابل اور محنتی نوجوان اس سروس میں آئیں اور یہ اسی صورت ممکن ہے اگر انہیں پُرکشش تنخواہ اور مراعات دی جائیں، محض اختیار کی کشش انہیں یہ ملازمت حاصل کرنے پر راغب نہ کرے۔ چالیس ہزار تنخواہ لینے والے افسر کو اگر ہم چالیس کروڑ کا اختیار دے کر یہ امید کریں گے کہ وہ کسی ولی اللہ کی طرح کام کرے گا تو پھر سول سروس کی وہی ’’بزتی‘‘ ہو گی جو آج ہمارے سامنے ہے۔
کالم کی دُم:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کے جس ہوٹل میں قیام پذیر ہیں اسے اکہتر برس قبل ایک بم دھماکے میں اڑا گیا تھا، نوّے سے زائد افراد مارے گئے تھے، یہ آپریشن جس شخص نے کیا اس کا نام Menachem Begin تھا، بعد میں یہ شخص اسرائیل کا وزیر اعظم منتخب ہوا۔ اس کے باوجود دہشت گرد مسلمانوں کو ہی کہا جائے کیونکہ اسرائیلی دودھ سے دھل چکے ہیں ۔



.
تازہ ترین