• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں اس وقت مانچسٹر میں ہوں ۔ابھی تھوڑی دیر پہلے وکٹوریہ ریلوے اسٹیشن پر کھڑا تھا ۔برمنگھم جانے کےلئے ٹرین کا انتظار کررہا تھا ۔اچانک ایک زور دار دھماکے نے سماعت کی کرچیاں بکھیر دیں ۔بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالااور جلدی سے اسٹیشن سے باہر نکل آیا۔ دھماکہ ریلوے اسٹیشن کے بالکل قریب مانچسٹر ایرینا میں ہواتھا۔باہر چیخیں تھیں ، شور تھا ۔لوگ ہی لوگ تھے ۔مانچسٹر ایرنیا سے نکلتے ہوئے لوگ ۔ادھر میری ٹرین بھی آگئی تھی ۔آخری ٹرین تھی ۔مس نہیں کی جا سکتی تھی ۔ میں واپس اسٹیشن کی الیکڑانک سڑھیوں پر دوڑتا ہوا پلیٹ فارم پر پہنچ گیا مگرفوری طور پر تمام ٹرینیں معطل کردی گئی تھیں۔ اس بات سے مجھے دھماکے کے نقصانات کی شدت کا اندازہو گیا تھا۔
میں جب تک وہاں رہا ہر طرف صرف ایمبولینسیں ہی تھیں ۔لوگ ہی لوگ تھے ۔ بھگدڑ ہی بھگدڑ تھی ۔یقینا ً اُس سے بھی کئی اموات ہوئی ہونگی۔جو دوست ا سٹیشن پر چھوڑ گیا تھا اسے فون کیا کہ آ کر لے جائے ۔وہ مجھے لینے کےلئے گھرسے نکلا مگراسے پولیس نے ایک میل دور ہی روک لیا ۔کچھ فاصلہ مجھے پیدل طے کرنا پڑا تھا مگر پھر ٹیکسی مل گئی ۔ٹیکسی نے مجھے منزل ِ مقصود تک پہنچایا مگر کرایہ نہیں لیا ۔بقول ڈرائیو اس مشکل لمحے میں ٹیکسی ڈرائیو ز نے اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ اس سانحہ کے شکارہونے والوں سے کرایہ نہیں لیا جائے گا۔
چلتے ہوئے ایک اوربھی دھماکہ سنائی دیا تھا مگر زیادہ زور دار نہیں تھا۔ یہ بعد میں پتہ چلا تھا کہ وہ دھماکہ پولیس نے اپنے زیر نگرانی کرایا تھا ۔یہ بم ہال کے قریب ہی پولیس کو ملا تھا ۔مانچسٹر ایرینا کے ہال میں آج امریکی گلوکار ایریانا گرانڈے کا شو تھا۔ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔سولہ ہزار لڑکیاں ، لڑکے اور بچے ہال میں موجود تھے۔گرانڈے اس وقت نئی نسل کی مقبول ترین گلوکارہ ہے ۔اس کے نغمے ہال میں بکھر رہے تھے کہ اچانک چیخوں میں بدل گئے ۔تیز دھنوں پر جھومتے ہوئے بچے اور بچیاں یک دم جان بچانے کےلئے باہر کی سمت دوڑ پڑی تھیں۔سیون سیون کے بعد یہ دوسرا بڑا دہشت گردی کا واقعہ ہے جو برطانیہ میں ہوا یعنی دس سال کے بعد دہشت گرد دوبارہ برطانیہ میں کوئی کارروائی کرنے میں کامیاب ہوئے ۔برٹش پولیس کے مطابق اس دھماکے میں انیس لوگ ہلاک ہوئے اور ساٹھ کے قریب زخمی ہوئے مگر موقع پر موجود جن چند لوگوں سے میری گفتگو ہوئی تھی ان کے خیال کے مطابق جانی نقصان بہت زیادہ تھا۔
سیون سیون کے واقعہ کے بعد برطانوی حکومت نے چاہا تھا کہ وہ ایسے مراکز جوبرطانوی مسلمان بچوں کے دل و دماغ میں نفرت کے بیج بو رہے ہیں،ان پرپابندی عائد کردی جائے ۔برطانوی حکومت نے اس صورت حال سے گزرنے کیلئے ایک ٹاسک فورس بھی بنائی تھی ۔ مسلمان کمیونٹی کو ایک کثیر فنڈنگ بھی دی گئی اور کہا تھاکہ تم اپنے اندر پھیلتے ہوئے انتہا پسندی کے جراثیم کا خود خاتمہ کرومگر افسوس ، انہوں نے اس طرف کوئی توجہ نہ دی صرف حکومت کویقین دلادیا کہ وہ خود اس عفریت کو کنٹرول کرلیں گے ۔اس سلسلے میں ’مناب ‘ نام کا ایک ادارہ بھی قائم کیا گیاجس کا یہی مقصد تھا۔مگر وہ بھی بری طرح ناکام ہوا۔ برطانیہ میں داعش کے نظریات پروان چڑھتے رہے ۔ایک مخصوص مکتبہ فکر کو دی جانے والی فنڈنگ دہشت گردی کیلئے استعمال ہوتی رہی۔ اسلام کی شکل بگاڑی جاتی رہی۔ویسے ابھی تک یہ طے نہیں ہوا کہ اِس خود کش دھماکے کےپس منظر میں کون تھا مگر عالمی صورت حال دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ یہ کام بھی داعش کے لوگوں کا ہی ہوگا ۔
بیسویں صدی کے آخری حصے سے شروع ہونے والی دہشت گردی کا آغاز القائدہ سے ہوا ۔پھر طالبان سامنے آئے اور اب داعش نے ظلم کا یہ پرچم دنیا میں اٹھا رکھا ہے۔امریکی صدر نے سعودی عرب کے دورے میں دہشت گردی کے خلاف مسلم ممالک سے مل کرجنگ لڑنے کا اعلان کیا مگردکھ اس بات کا ہے کہ امریکی صدر کے نزدیک دہشت گردی کا سرچشمہ ایران ہے ۔حزب اللہ اور حماس دہشتگردی کو فروغ دینے والےہیں ۔اس نے داعش کا بھی ذکر کیا مگر دبے لفظوں میں ۔حالانکہ دنیا کواگر دہشت گردی سےکوئی خطرہ ہے تو اس کا سب سے بڑا سبب داعش ہے اور داعش اپنی تمام تر فنڈنگ کہاں سے لیتا ہے یہ سب کو معلوم ہے اور اسلحہ وہاں سے حاصل کرتا ہے جہاں بنتا ہے ۔
مانچسٹر میں جس دوست کے گھر قیام کیا ۔وہاں تقریباً رات جاگتی رہی ۔اِسی موضوع پر گفتگو ہوتی رہی۔ رات تین بجے کے قریب دروازہ پر دستک ہوئی۔میرے دوست حیرانگی سے کہا کہ ’’ اِس وقت کون ہوسکتا ہے ‘‘ کھڑکی سے پردہ ہٹا کر دیکھا اور پھر جلدی سے دروازہ کھولتے ہوئے کہنے لگا ’’ہمسایہ ہے ‘‘۔اس کاہمسایہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوا اور میرے دوست سے کہنے لگا کہ اس کی بیوی کی کمر میں سخت درد ہے۔تمہارے گھر میں کوئی درد کم کرنے والی گولی ہوگی ۔ میرے دوست نے کہا ’’آپ فوری طور پر ٹرپل نائن پر فون کریں ایمبولینس منگوالیں ۔کہنے لگا ’’سوچا تو میں نے بھی تھا مگر میری وائف کا خیال ہے کہ مجھے ایسی کوئی تکلیف نہیں جس میں جان کا خطرہ لا حق ہو اور اس وقت ایمبولینس کی زیادہ ضرورت مانچسٹر ایرینا میں زخمی ہونے والوں کو ہے ۔ سو میں ایسے میں ایمبولینس نہیں بلوا سکتی ۔ میرےدوست نے درد کی گولیوں کا پیکٹ اُسےدیا ۔وہ چلا گیا اور میں سوچنے لگا کہ کیا ایسی قوم کو دہشت گرد شکست دے سکتے ہیں ۔



.
تازہ ترین