• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ویسے تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ہر دعوی پر تقریباً یوٹرن لے چکے ہیں لیکن مسلمانوں کے بارے میں ان کے رویے میں بنیادی تبدیلی قابل غور ہے۔ جب وہ صدارتی الیکشن لڑ رہے تھے تو مسلمانوں کے خلاف اسٹیفن ملر ان کو تقریریں لکھ کر دیتے تھے۔ سات مسلمان ملکوں کے خلاف امیگریشن قانون کا مسودہ بھی اسٹیفن ملر کا ہی لکھا ہوا تھا۔ اب ا سٹیفن ملر نے ہی مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کے بارے میں صدر ٹرمپ کو تقریر لکھ کر دی۔ ا سٹیفن ملر زمانہ طالب علمی سے مسلمان مخالف تحریک میں سرگرم رہے ہیںلیکن اب وہ پانسہ پلٹتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ امریکہ کی قربت کے افسانے لکھیں گے۔ کیا موصوف کی قلبی کایا پلٹ ہو گئی ہے یا یہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا اظہارہے؟
سب جانتے ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ مذہبی شخصیت نہیں ہیں لیکن انتخابات میں جیتنے کیلئے انہوں نے جو قدامت پرست اتحاد تشکیل دیا اس میں مذہبی بنیاد پرست عیسائی تنظیمیں بنیادی اہمیت کی حامل تھیں۔ صدارتی مہم کے دوران وہ ہر دوسرے دن مسلمانوں کے خلاف کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑتے رہتے تھے۔ انہوں نے تمام مسلمانوں کیخلاف امریکہ میں داخلے پر پابندی کا بھی اعلان کیا تھا۔ لیکن جس طرح سے انہوں نے سعودی عرب کو بیرونی دورے میں ترجیح دی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب مذہب کا عالمی سطح پر ایک اور ڈھنگ میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ وہ پہلے بھی مذہب کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر رہے تھے اور اب بھی وہی کچھ کرنے جا رہے ہیں۔ پہلے وہ امریکی بنیاد پرست عیسائیوں کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے اسلام کے خلاف شور و غل مچا رہے تھے اور اب وہ عالمی سطح پر امریکی تسلط کو قائم رکھنے کیلئے دنیا کی مذہبی طاقتوں کا سہارا لے رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا سعودی عرب میں شاندار استقبال کیا گیا۔ اس کے مقابلے میں جب صدر اوباما سعودی دورے پر آئے تھے تو ان کی ساتھ انتہائی سردمہری کا اظہار کیا گیا تھا۔ سعودی حکمراںصدر اوباما کے ایران کے ساتھ کئے جانے والے جوہری معاہدے کے سخت مخالف تھے، اسرائیل نے بھی صدر اوباما کے ساتھ گرمجوشی کا اظہار نہیں کیا تھا کیونکہ وہ بھی ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کو اسرائیل کے مفادات کے منافی سمجھتا تھا۔ صدر اوباما امریکی فوجوں کو مشرق وسطی میں ایک حد سے زیادہ استعمال کرنے سے اجتناب کرتے تھے۔ لیکن صدر ٹرمپ جارحانہ حکمت عملی اپناتے ہوئے امریکی فوجوں کا مشرق وسطی میں استعمال بڑھا رہے ہیں۔ یہی وہ بنیادی تبدیلی ہے جس کے وجہ سے سعودی عرب مشرق وسطی میں مذہبی اتحاد قائم کرنے کے لئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے بچھا جا رہا ہے۔سعودی عرب اور امارات کے بادشاہوں کی تمنا ہے کہ امریکہ ایران کے ساتھ کیا گیا جوہری معاہدہ توڑ دے اور ایران کے علاقے میں اثر و رسوخ کو بڑھنے سے روکنے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے۔ وہ ایک طرف شام میں امریکی فوجوں کے بشر الاسد کے خلاف استعمال کا خواہاں ہے تو دوسری طرف وہ یمن میں سعودی جنگ کی عملی حمایت کا طلبگار ہے۔ اس وقت مشرق وسطی میں ایران شام کی حکومت کا حامی ہے اور شاید یمن میں بھی ہوتی قبائل کی اسلحے سے مدد کر رہا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسلام کے بہانے فرقہ واریت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ سعودی عرب نے پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے علاوہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد اور دوسرے اکثریتی ممالک کے حکمرانوں کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے کے موقع پر ریاض میں مدعو کیا : سعودی عرب یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ اسلامی دنیا کا مسلمہ رہنما ہے۔سعودی عرب کے حکمران ہوں یا امارات کے شیوخ، سب جانتے ہیں کہ امریکہ کو اپنا معاشی مفاد بہت عزیز ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو خصوصی طور پر امریکہ کے لئے معاشی ’’ڈیل‘‘ کا چرچا کرتے رہے ہیں۔ سعودیوں نے امریکہ کی اسی خواہش یا کمزوری کو مد نظر رکھتے ہوئے 350 بلین ڈالر کے معاشی معاہدوں پر دستخط کئے ان میں 110بلین ڈالر کا اسلحہ امریکہ سعودی عرب کو بیچے گا۔ سعودی عرب کا اس اسلحے کا استعمال مشکوک ہے لیکن امریکہ کے ملٹری انڈسٹریل کمپلس کو ایک خطیر رقم مل جائے گی۔ ناقدین کا خیال ہے کہ سعودی عرب نے کئی سو بلین ڈالر امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خرچ کئے ہیں۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں دعویٰ کر سکتے ہیں کہ وہ بہترین ڈیل میکر ہیں۔
صدر ٹرمپ اپنے مسلمان مخالف انتخابی نعروں سے بظاہر منحرف ہوتے ہوئے مسلمانوں سے ایک نئے معاہدے کی بات کر رہے ہیں۔وہ اسلامی ممالک میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف تقریر کرتے ہوئے صرف دہشت گردوں اور انتہا پسند عناصر کے خلاف اقدامات کا تقاضہ کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی مخالف ہے لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون اس زمرے میں آتا ہے۔ سعودی حکمرانوں کی نظر میں ایران سب سے بڑا دہشت گرد اور انتہا پسند ملک ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے اکثر لوگ بھی ان کے ہم خیال ہیں لیکن کیا امریکہ ایران کے خلاف براہ راست کارروائی کر سکتا ہے؟ اسکے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ سعودی عرب کو کسی حد تک مطمئن کرنے کیلئے امریکہ شام اور یمن میں اپنی عسکری موجودگی میں اضافہ کردے۔
صدر ٹرمپ کے سعودی عرب کے دورے کے نتیجے میں مسلمانوں میں فرقہ ورانہ صف بندی میں اضافہ ہوگا۔ اگرچہ ریاض میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعزاز میں اسلامی کانفرنس کی گئی لیکن اس میں فلسطین اور کشمیر کا ذکر کم ہی آیا۔ البتہ علاقے میں آمریتوں کی بنیادیں مضبوط ہو گئی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ امریکہ کسی ملک کی بھی طرز حکمرانی کے بارے میں کوئی لیکچر نہیں دے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ آمروں کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں خاموش رہے گا۔ مشرق وسطی کے حکمران امریکہ سے اسی طرح کے روئیے کی تمنا کرتے ہیں۔



.
تازہ ترین