• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دُنیا میں جہازوں کی بہت سی اقسام ہیں۔جنگی جہاز، بحری جہاز، مسافر جہاز، لڑاکا جہاز اور کاغذی جہاز وغیرہ۔ اِن اقسام کے ساتھ ساتھ کچھ جہاز ایسے بھی ہیں جو ہمارے بچے گھروں میں استعمال کرتے ہیں، آٹا گوندھنے والی ’’پرات‘‘ میں پانی بھر کر اُس میں موم بتی کی مدد سے چلنے والے بحری جہاز جو باقاعدہ آواز بھی پیدا کرتے ہیں، اِسی طرح لوہے کے تار میں دو پروں والا جہاز جو بچے آسمان کی جانب اُڑاتے ہیں اور وہ تھوڑی سی پرواز کے بعد زمین پر آن گرتا ہے۔اِن سب سے ہٹ کر کچھ جہاز ایسے بھی ہیں جو جہاں چاہیں وہاں ’’ لینڈ ‘‘ یا لنگر انداز ہو سکتے ہیں، اُنہیں ایئر پورٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی ’’ رن وے ‘‘ کی، بلکہ وہ تو رات کی تاریکی میںبھی بغیر ’’ سگنل ٹاور ‘‘ کے محو پرواز ہو سکتے ہیں۔اِ ن جہازوں کو ایندھن کی ضرورت نہیںہوتی بلکہ یہ ہیروئن، ٹیکہ، گولیاں، راکٹ اور دوسری نشہ آور اشیاء کی مدد سے پرواز کر لیتے ہیں۔یہ ہوتے تو انسان ہیں لیکن انہیں ’’جہازانہ حرکات و سکنات ‘‘ کی وجہ سے’’ جہاز‘‘ پکارا جاتا ہے۔یہ نڈر اور آنے والے نتائج کی پرواہ کئے بغیر کسی بھی جانب پرواز کرجانے والے جہاز عموماً سڑکوں کے کنارے، جھاڑیوں کے پیچھے یا گلیوں کی ’’ نالیوں ‘‘ پر ہی لینڈ کر تے ہیں، لینڈ کرتے وقت نہ تو انہیں کوئی خراش آتی ہے اور نہ ہی وہ ’’ کریش ‘‘ ہوتے ہیں۔اِن انسانی جہازوں کو پیدا کرنے والی فیکٹریاں پاکستان کے تمام شہروں اور دیہاتوں میں پائی جاتی ہیں،ایسی فیکٹریوں کے پاس حکومتی اور انتظامی امور کے اداروں کی ’’ پشت پناہی ‘‘ کا سرٹیفکیٹ ہوتا ہے جس کی وجہ سے انہیں ’’ سیل ‘‘ بھی نہیں کیا جا سکتا۔انسان کو جہاز بنانے کے کارخانوں اور فیکٹریوںمیں ’’ میٹریل ‘‘ جسے عرف ِ عام میں ہیروئن کہا جاتا ہے وافر مقدار میں موجود ہے، جس سے پاکستانی قوم کے نوجوان سیراب ہوتے ہیں، دُنیا بھر کے ممالک اور وہاں مقیم کمیونٹی اِس بات پر حیران ہے کہ آخر وہ کون سا نسخہ ہے جس کو استعمال کرنے سے پاکستانی قوم اپنے اُوپر ہونے والے ظلم و ستم، مہنگائی، دہشت گردی، امن و عامہ کی خراب صورت حال، اغوا برائے تاوان اور اس طرح کے دوسرے مصائب ڈھائے جانے کے باوجود’’ اُف‘‘ تک نہیں کرتی، تحقیق کے بعد پتا چلا کہ قوم کے نوجوانوں کے دماغوں اور جسم میں یہ زہر اِس تیزی سے پھیلا دیا گیا ہے کہ وہ کچھ سوچنے سمجھنے اور حکومتی نمائندوں کے چناؤ کی صلاحیت سے مکمل طور پر محروم ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک میںاِس ’’ نسخہ ‘‘ کی ڈیمانڈ نے کئی پاکستانیوں کو ’’اُکسایا ‘‘ کہ وہ جسم کے مختلف حصوں یا سامان میں چھپا کر اُن ممالک میں اِس زہر کو پہنچائیں جہاں اِس کی قیمت کئی گناہ زیادہ ہے۔سعودی عرب میں ایسا نسخہ ( ہیروئن ) لے جانے کی سزا موت ہے، ہر جمعہ والے دن سرعام منشیات اسمگلروں کے سر تن سے جُدا کئے جاتے ہیں لیکن موت کی سزا کا ڈر بھی ہیروئن دوسرے ممالک اسمگل کرنے والوں کے حوصلوں کو پست نہیں کر سکا۔اپنے آپ کو موت کے منہ میں دھکیلنے والے یا تو اپنے ملک کے معاشی حالات سے ’’ اپ سیٹ ‘‘ ہیں اور راتوں رات امیر ہوناچاہتے ہیں یا انہیں اپنے خاندان میں شریکوں کو نیچا دیکھانے کا شوق ایسا گھناؤنا کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔یورپی ممالک اور گلف میں جانے والی پروازوں میں ایسے بہت سے مسافر گرفتار کئے گئے جو ہیروئن اسمگل کرنا چاہتے تھے۔چاہئے تو یہ تھا کہ اسمگلنگ کا یہ ناسور ختم کیا جاتا،دُنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی بننے والے اِس فعل کا قلع قمع کیا جانا اشد ضروری تھا، لیکن ہمارے قومی اداروں نے تھوڑے وزن میں ہیروئن لے جانے والے اُن اسمگلرزکے منہ پر تمانچہ مارتے ہوئے اُنہیں بتایا کہ بار باراِس مکروہ فعل سے اجتناب کرتے ہوئے کم از کم 20کلو ہیروئن برطانیہ لے جائیں، اور ایسا ہی ہوا، پاکستان کی معیشت اور وقار کو سب سے زیادہ نقصان دینے والی فضائی کمپنی نے یہ عمل کر دیکھایااوربرطانیہ میں قومی پرچم سے آویزاں ہمارا مسافر جہاز ہیروئن سمیت پکڑا گیا۔دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانی کمیونٹی جو محنت مزدوری کرکے اپنے خاندانوں کو پال رہی ہے انہیں اِس گندے عمل سے جس تنقید کا سامنا کرنا پڑا وہ بیان سے باہر ہے، ابھی تارکین وطن پاکستانی اِس گھنائونے فعل سے انگشت بدنداں ہیں، اوربرطانوی سیکورٹی ادارے تفتیش کر رہے ہیں کہ پاکستانی مسافر جہاز کے خفیہ خانوں کو کھول کر اُس میں ہیروئن کیسے اور کس کی اجازت سے رکھی گئی؟کہ پی آئی اے کا ایک اور ایساطیارہ پکڑا گیا جو 18کلو ہیروئن سے لیس برطانیہ کے علاوہ کسی دوسرے ملک اُڑان بھرنے کو تیا ر تھا۔قومی ایئر لائن کے مسافر طیاروں میں ہیروئن کی موجودگی نے بہت سے سولات پیدا کر دیئے ہیں کیونکہ یہ کام کسی عام ملازم کا نہیں ہو سکتا بلکہ اِس میں قومی ایئر لائن کے بڑے آفیسرز اور حکومتی نمائندے ملوث ہونے کے امکانات ہیں، اِس فعل میں ملوث مجرمان کو کون پکڑے گا اور انہیںکہاں سے سزا ملے گی ؟ یہ کہنا قبل از وقت اوربہت مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی ہے۔ تفتیش ہو گی، انکوائری ہو گی، کمیٹی بیٹھے گی، تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا جائے گا اور ’’ پیٹی بھائی ‘‘ ایک دوسرے کے جرائم پر اُسی طرح پردہ ڈال دیں گے جس طرح سابقہ اور موجودہ حکومت نے پردہ داری کا خیال رکھا ہوا ہے۔حکومت پاکستان چار سالوں میں قوم سے کئے گئے وعدوں میں سے کوئی ایک بھی پورا نہیں کر سکی، چار سال ڈگمگاتے قدموں سے چلنے والی حکومت خود کو قائم کرے یا ایسے مجرمان کو پکڑ کر انہیں سزا دے ؟حکومتی نمائندے کہتے ہیں کہ اگر ہم چھوٹے چھوٹے جرائم کی انکوائریوں، تفتیشوں اورتحقیقات میں لگ گئے توکبھی ترقی نہیں کر سکیں گے۔اِ ن نمائندوں کے پاس ہر سوال کا ’’گھڑا گھڑایا‘‘ جواب موجود ہوتا ہے جو وہ ’’اسپاٹ فیس‘‘ کے ساتھ ادا کر دیتے ہیں۔پاکستان کے موجودہ حالات اور حکومتی نمائندوں کے ٹی وی ’’ٹاک شوز‘‘ میں آکر تمام سوالوں کے جوابات بلا حیل و حجت دینے پر ایک لطیفہ یاد آگیا، ایک نشئی آدھی رات کو قبرستان میں بیٹھا نشہ کر رہا تھا ’’گشتی پولیس‘‘ کا وہاں سے گزر ہوا، انہوں نے نشئی سے پوچھا کہ اتنی رات یہاں کیا کر رہے ہو ؟ نشئی جھٹ سے بولا، جناب عالی میں اپنے اباجان کی قبر پر فاتحہ پڑھ رہا ہوں، پولیس والے نے غور سے دیکھا کہ جس قبر پر نشئی بیٹھا ہے وہ چھوٹے سائز کی ہے، پولیس والے نے نشئی کو پاؤں کی ٹھوکر رسید کرتے ہوئے کہا جھوٹ بولتے ہو، یہ تو کسی بچے کی قبر ہے ؟ نشئی حکومتی نمائندوں کی طرح ذہین تھا بولا جناب عالی دراصل میرے ابا جان بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے۔



.
تازہ ترین