• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیکی اور بدی کے درمیان موجود لائن آف کنٹرول کے آس پاس کچھ علاقہ کسی بھی قوت کی تحویل میں نہیں ہوتا۔ یہاں دونوں اطراف کے اثرات موجود ہوتے ہیں۔ جو لوگ بدی والے حصے کی لائن کے قریب ہوتے ہیں ان پر بدی کے اثرات زیادہ نمایاں دکھائی دیتے ہیں اور جو نیکی کی لائن کے قریب ہوتے ہیں وہ نیک اور پارسا انسان کہلاتے ہیں یا یوں کہئے کہ وہ صحیح معنوں میں انسان کہلانے کے حق دار ہوتے ہیں۔ انسان کی تمام زندگی اسی No Man Land میں گزر جاتی ہے۔ لائن کراس کرنے والے زندگی کے نئے روپ میں ظاہر ہوتے ہیں۔ نیکی کی حدود میں داخل ہونے والے صوفی اور ولی کے رتبے پر فائز ہو کر کائنات کو خیر کی آماجگاہ بنانے کی عملی جدوجہد کرتے ہیں اور انسانیت کی خدمت کو حاصلِ زندگی سمجھتے ہیں جب کہ بدی کی طرف بڑھنے والے شیطان کے پیروکار بن کر کائنات کا حسن تباہ و برباد کرنے کی تدبیریں کرتے ہیں اور انسان کو اذیتیں دے کر مسرت محسوس کرتے ہیں۔ پوری دنیا میں کسی نہ کسی حوالے سے مختلف شعبۂ زندگی میں یہ دونوں طاقتیں کسی نہ کسی مقام پر مصروفِ کار ہیں۔ نیکی اور بدی کی علامتوں کے درمیان آپس میں بھی ایک چپقلش اور جنگ جاری رہتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے پر حاوی ہونے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ دونوں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سرگرمِ عمل ہیں۔ اگر توازن برقرار نہ رہے تو دنیا میں وحشت کا راج ہونے لگتا ہے۔ آج کل کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو اتنی ترقی کے بعد بھی آج کا انسان خوف اور دہشت کا شکار ہے، اس کا کوئی پل مکمل اطمینان اور کُلّی مسرت سے ہمکنار نہیں، ایک اَن دیکھی مصیبت کا ہیولہ ہر وقت اس کی سوچ پر چھایا رہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اس وقت خیر کی حکمرانی نہیں بلکہ شر کے شدید اثرات کے تحت ہے۔ اگرچہ انسانی تاریخ جنگ و جدل اور خونریزی سے عبارت ہے۔ طاقت، حکومت اور دوسروں کو زیر کرنے کے جذبے نے کروڑوں انسانوں کو موت سے ہمکنار کیا۔ بڑے بڑے ظالم اور جابر بادشاہ تاریخ کے ورق میں دفن ہوتے رہے مگر پیچھے آنے والوں نے کوئی نصیحت نہیں پکڑی۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب انسان کائنات کے ذرّے ذرّے کا راز جان چکا ہے، آپس میں محبت کو پروان نہیں چڑھا سکا۔ انسانوں کی تفریق قوموں، نسلوں اور عقائد کی وجہ سے نہیں بلکہ ہر شر انگیز کارروائی کے پیچھے معاشی مفادات کارفرما ہیں۔ ظاہر ہے آج کے دور میں روایتی جنگوں کا امکان نہیں اور وہ جو تخریب بیچ کر گزارا کرتے ہیں انہیں امن کو سبوتاژ کرنے کے لئے منفرد حکمتِ عملی ترتیب دینی پڑتی ہے۔ کسی ملک کو ہلہ شیری دے کر دوسرے پر پراکسی وار کے لئے ترغیب دی جاتی ہے تو متاثرہ ملک کی حفاظت کے نام پر اس کے سونے کے سکّوں پر قبضے کا معاہدہ کر لیا جاتا ہے۔ امریکی صدر کے حالیہ دورۂ سعودی عرب پر ابھی لمبی چوڑی بحث نہیں کی جا سکتی اس لئے کہ دنیا کی میز پر اس وقت مختلف گیمز کی بساط بچھی ہوئی ہے۔ ہمیں تو بڑی دیر بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ فلاں گیم میں ہمارا کردار کیا تھا، ہم نے کیا کیا اور ہمیں کیا کرنا چاہئے تھا۔ پالیسی ساز اس ذہانت سے مہرے بچھاتے ہیں کہ عقل و فکر مائوف ہو جاتے ہیں یا مائوف کر دیئے جاتے ہیں۔ بہرحال وہ صدر ٹرمپ، جنہوں نے اسلام دشمنی اور مسلمان مخالفت کے نعرے پر کامیابی حاصل کی، کا اسلامی ممالک کی کانفرنس کے حوالے سے پہلا غیر ملکی دورہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب صرف وقت کی ڈائری میں محفوظ ہے۔ ایک طرف یہ اسلامی ممالک کی کانفرنس ہے اور دوسری طرف ایک اسلامی ملک ایران کے خلاف مہم جوئی کا آغاز ہے۔ حالانکہ کچھ عرصہ قبل امریکہ نے ایران سے بھی کچھ خاص معاہدے کئے تھے۔ موجودہ صورت حال میں حالیہ بیان سے کم از کم عملی جنگ نہ بھی ہو تو بیانات کی حد تک خطے میں خوف و ہراس کی فضا ضرور پیدا ہوئی ہے تاہم وقتی طور پر صدر ٹرمپ کے دورے کو مثبت معنوں میں لیتے ہوئے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ وہ واقعی امن اور دوستی کا پیغام لے کر آئے ہیں اور الیکشن مہم کے دوران انہوں نے جس انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا تھا وہ اس کا تدارک کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ اسلامی ملک دنیا میں ایک طاقت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان کی طاقت مختلف فرقوں میں بٹی پڑی ہے لیکن ان کی زمینوں اور پہاڑوں میں موجود سونا اور تیل اس وقت پوری دنیا کی ضرورت ہے اس لئے مسلمانوں کو کارنر کر کے کوئی بھی ترقی یافتہ ملک اپنے وسائل کو مزید بڑھانے کی پوزیشن میں نہیں۔ آج اس بحث کو ختم کرتے ہوئے کہ دہشت پسندی کے لئے زمین کس نے ہموار کی، بیج کس نے بویا، زہریلی فصل پر تیل کس نے ڈالا اور ماچس کس نے جلائی کیوں کہ اب تو یہ معاملہ اتنا آگے بڑھ چکا ہے ایک دنیا اس سے متاثر ہو چکی ہے۔ کچھ کے بدن جل چکے ہیں اور کچھ کی روحیں مسمار ہو چکی ہیں تو سفر نئے زاویے سے شروع کیا جائے۔ اس زہریلی فصل کی کٹائی کو مقصد قرار دیا جائے۔ اڑ کر دور دراز پہنچنے والے بیجوں کو تلف کرنے کے امکانات سوچے جائیں۔ کسی بھی ملک کو تنہا کر کے اس میں شدت پسندی کو اُبھارنے کی بجائے دنیا کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی اپناتے ہوئے اس سے مذاکرات کئے جائیں۔ امریکی صدر کے اس بیان میں کوئی دو رائے نہیں کہ اُمتِ مسلمہ کو ہی شدت پسندی کے خاتمے کے لئے آگے آنا ہو گا کیوں کہ یہ شدت پسندی مختلف فرقوں کو ہوا دے کر پیدا کی گئی ہے اور اس شدت پسندی کا شکار بھی امتِ مسلمہ ہی ہے یعنی ایک ہی امت فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کی دشمن ہوئی بیٹھی ہے۔ آلۂ کار کا کوئی دین نہیں ہوتا، وہ تو ایک مشن پر ہے اور اس کا مشن تخریب کاری اور انسانیت کی تذلیل ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نیکی اور بدی کے درمیان ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک سوال خود سے کریں کیا ہم ظالم ہیں، آلۂ کار ہیں، سہولت کار یا بے بس متاثرین اور تماشائی۔ آئیے ہم سب اپنی اپنی سطح پر خیر کی حکمرانی کے لئے کردار ادا کریں۔ کسی کا آلۂ کار بننے کی بجائے اپنی آزادانہ سوچ کے مطابق منطقی اندازِ فکر اپنائیں۔ یقینا ہمارا ایسا عمل ہماری ذات، ہمارے ملک اور انسانیت کے لئے خیر کا باعث ہو گا۔



.
تازہ ترین