• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ لاکھ انہیں گھر بلائیں، ہیپی برتھ ڈے منوائیں، کیک کٹوائیں یا مری لنچ کروائیں مگر نہ یہ بدلنے والے اور نہ ان سے کسی خیر کی توقع۔
گودھرا کی جنت شیخ نے بتایا کہ 28فروری کی شام ساڑھے چھ بجے مشتعل ہجوم نے میرے شوہر پر چھریوں، کلہاڑیوں سے حملہ کیا اور تھوڑی ہی دیر میں جب وہ زمین پر گر کر تڑپنے لگا تو لوگوں نے پٹرول چھڑک کر اسے زندہ جلا دیا، اسی دوران چند افراد جنہوں نے کپڑوں سے منہ ڈھانپ رکھے تھے اُنہوں نے پہلے میری نند کو برہنہ کر کے گھمایا، اس کے ساتھ زیادتی کی اور پھر اسے اور اس کی تین ماہ کی بچی پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی، ہم5چھ خواتین ایک گھر کی چھت پر دم سادھ کر لیٹے یہ سب دیکھ رہے تھے، میں نے دیکھا کہ لوگ اب میرے منہ بولے بھائی کو جانوروں کی طرح مار رہے تھے، جب اس میں ہلنے کی بھی سکت نہ رہی تو اس پر بھی پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی، ہجوم میں کسی نے جب چلنے پھرنے سے بھی قاصر میری ضعیف ساس کے رونے دھونے کی آواز سنی تو اس کے کمرے کا دروازہ توڑ کر پہلے نقدی اور زیورات چھینے، اس کے چار سالہ نواسے کو اس کے سامنے زندہ جلایا اور پھر ان جانوروں نے میری بوڑھی ساس کو بھی آگ لگا دی، ان چند گھنٹوں میں ان لوگوں نے ہمارے محلے کی کئی لڑکیوں کو بے آبرو کر کے انہیں موقع پر ہی جان سے مار دیا، جب شام سے ذرا پہلے ہجوم دوسرے محلے کی طرف گیا تو ہم بمشکل وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
کھیڈا کی کلثوم نے کہانی کچھ یوں بیان کی کہ 28فروری کو پچاس سے زیادہ مسلح جنونی ہندو گنگوتری سوسائٹی میں ہمارے گھروں پر حملہ آور ہوئے، ہم سب گھبرا کر گھروں سے نکل کر بھاگے تو ٹولیوں میں بٹے ہندوئوں نے ہمارا پیچھا کرنا شروع کیا اور اسی دوران جو لڑکی بھی ان کے ہاتھ لگتی یہ اس کی عزت لوٹ کر اسے آگ لگا دیتے، میں نے دو، تین گھنٹوں میں 16سالہ مہر النساء سمیت آٹھ دس لڑکیوں کیساتھ زیادتی ہوتے دیکھی، تمام لڑکیوں کو زندہ جلانے اور 5-6گھنٹے لوٹ مار کرنے کے بعد یہ لوگ منتشر ہو گئے۔ وست نگر کے محمد افضل نے کہا کہ یکم مارچ کو میں نے دیکھا کہ ہمارے محلے کی حاملہ کوثر بانو بلوائیوں کے آگے بھاگتے بھاگتے جب تھک ہار کر گری تو ہجوم نے اسے نرغے میں لیکر چھریوں اور چاقوئوں سے اس کا پیٹ چیر کر بچہ باہر نکالا اور خون میں لت پت کوثر بانو کو آگ لگا کر اس کا بچہ بھی اسی آگ میں پھینک دیا۔
گزشتہ 15سال سے ننگے سر اور ننگے پاؤں روتی دھوتی لوڑ گاؤں کی عاقلہ بی بی نے اپنے دُکھوں کی پوٹلی کچھ اس طرح کھولی کہ ’’حالات بہت خراب ہو چکے تھے لیکن میرے ریٹائرڈ اسکول ٹیچر سسر اس لئے گاؤں نہیں چھوڑ رہے تھے کہ چونکہ علاقے کے ہندو ان کا احترام کرتے ہیں لہٰذا وہ انہیں نقصان نہیں پہنچائیں گے، لیکن ان کا خیال غلط نکلا اور 3مارچ کی سہ پہر مشتعل ہجوم نے ہمارے گھر پر بھی حملہ کر دیا، ہم افراتفری میں گھر سے نکل کر مختلف سمتوں میں بھاگتے ہوئے قریبی کھیتوں میں جا گھسے مگر لوگوں نے ہمیں وہاں بھی ڈھونڈ نکالا اور میری نظروں کے سامنے میرے سسر کے شاگردوں نے سب سے پہلے انہیں ہی بے دردی سے قتل کرکے لاش کو آگ لگائی، پھر انہوں نے میرے خاندان کے ایک ایک فرد کو ڈھونڈ کر مارنا شروع کردیا، میں اپنے خاندان کے لوگوں کی چیخیں سن رہی تھی، یہ سب منتیں، سماجتیں کر رہے تھے مگر کوئی ان کی نہیں سن رہا تھا، اسی دوران میں نے اپنے محلے کے گانو باڑیا اور سنیل کو اپنی بیٹی شبانہ کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لے جاتے دیکھا، وہ بہت خوفزدہ لگ رہی تھی، میں نے بہت کوشش کی مگر مجھ میں اتنی طاقت بھی نہ تھی کہ اُٹھ کر اپنی بیٹی کو بچانے کی ایک کوشش ہی کر لیتی، پھر میں نے اپنی بیٹی کی آخری چیخیں سنیں، اس کے بعد میں نے اپنی چچا زاد، شاہانہ اور رقیہ کی آوازیں بھی سنیں جو لوگوں سے اپنی عزت کی بھیک مانگ رہی تھیں، میرا دماغ ماؤف ہو چکا تھا اور میرے ہوش جواب دے رہے تھے اور پھر بے ہوش ہوتے ہوئے مجھے یہ آخری آواز سنائی دی کہ ’’سب لاشوں کو آگ لگا دو، کوئی ثبوت نہیں رہنا چاہئے‘‘ اس کے بعد مجھے کچھ پتا نہیں کہ کیا ہوا، مجھے جب ہوش آیا تومیں اسپتال میں تھی۔‘‘
کل کی طرح آج بھی آنسو بہاتے گلبرک سوسائٹی کے جیون سلطان کہتے ہیں کہ 15مارچ 2002ء کو چارہ نگر اور کوبر نگر کی طر ف سے آیا ہجوم شام چھ بجے کے قریب ہمارے گھروں میں گھسا، یہ گھروں میں لوٹ مار کرتے، مردوں کو قتل کرتے اور عورتوں سے زیادتی کرکے انہیں آگ لگاتے جا رہے تھے، ہم نے پولیس سمیت ہر محکمے کو فون کرکے مدد مانگی مگر کوئی بھی مدد کیلئے نہ آیا، اُس روز نہ صرف میری 22سالہ بیٹی جس کی ایک ماہ بعد شادی ہونے والی تھی، اسے زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا بلکہ میرے خاندان کے 5افراد جن میں میری 45سالہ بیوی، 16اور 18سال کے 2بیٹے اور8 اور20 سال کی 2بیٹیاں شامل تھیں، کو بھی زندہ جلا دیا گیا، اسی روز میں نے یہ بھی دیکھا کہ حسین نگر کی 13سالہ فرزانہ کو زیادتی کے بعد زندہ جلانے والے گڈو، سریش اور نریش نے 12سالہ نورجہاں کو بھی زیادتی کے بعد قتل کر دیا اور میرے سامنے ہمارے علاقے کے بھوانی سنگھ نے ساتھیوں کی مدد سے 5مردوں اور ایک کم سن لڑکے کو قتل کیا۔
صاحبو! یہ کسی ناول کے اقتباسات ہیں اور نہ کسی افسانے کے حصے اور یہ کسی فلم کے مناظر ہیں اور نہ ہی کسی ذہن کی اختراع، بلکہ یہ کڑوے سچ، یہ تلخ حقیقتیں، یہ سب بے بسیاں، یہ تمام بے کسیاں، یہ تذلیل، یہ رسوائی، یہ حیوانیت، یہ بربریت مطلب یہ سب کچھ سیکولر بھارت کے صوبے گجرات کے 26علاقوں میں فروری 2002ء سے مئی 2002ء کے دوران بدنصیب مسلمانوں کو سہنا پڑا، وہاں جو ہوا، یقین جانئے یہ اس کی ایک جھلک، ورنہ ان 3مہینوں میں ہونے والا بہت کچھ تو ناقابلِ بیان اور ناقابلِ تحریر اور دوستو! ہو سکتا ہے کہ بدقسمتیوں اور بدنصیبیوں میں گھری مجبور و بے کس مسلم برادری کی یہ دل دہلا دینے والی آپ بیتیاں، جنونی ہندوؤں کے ظلم و ستم اور انتہاپسندوں کے بھیانک جرائم کبھی سامنے نہ آتے، اگر دہلی کی سیدہ حمیدہ اور مالتی گھوش، بنگلور کی اوتھ منورما، احمدآباد کی شیبا جارج، تامل ناڈو کی ساری ٹھیکا اور گجرات کی فرح نقوی جیسی بہادر خواتین اپنی مدد آپ کے تحت گجرات کے لٹے پٹے 20ہزار مسلمانوں کے 7امدادی کیمپوں میں 15روز گزار کر ان زندہ لاشوں کے دُکھ پوری دنیا میں نہ پھیلاتیں اور اگر بھارتی رسالے تہلکہ کی رپورٹر رعنا ایوب فلم ساز کے روپ میں گجرات جا کر وہاں ہوئے مظالم پر ’’گجرات فائلز‘‘ نامی کتاب نہ لکھتیں، گو کہ یہ سب کچھ سامنے آنے اور اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ہر ادارے کو تمام ثبوت بھجوانے کے باوجود بھی نہ کچھ ہونا تھا اور نہ کچھ ہوا، لیکن یہاں زیادہ اہم بات یہ کہ یہ مسلم کش فسادات جن میں 3ہزار سے زیادہ مسلمان قتل کر دیئے گئے ,2ہزار لاپتہ ہوئے، 11سو خواتین کی عزتیں لوٹی گئیں اور 1لاکھ لوگ بے گھر ہوئے، ان کا اسکرپٹ رائٹر، ہدایتکار اور ماسٹر مائنڈ صوبائی وزیراعلیٰ نریندر مودی تھا، جی ہاں پاکستان توڑنے پر فخر کرنے والا مودی، وہی مودی جو اُس وقت گجرات کا وزیراعلیٰ تھا اور آج بھارت کا وزیراعظم، وہی مودی جس نے ان فسادات کے سینکڑوں مجرموں کو بچا کر صرف 60ہندوؤں کو معمولی سزائیں دلوا کر معاملہ دبا دیا اور وہی مودی جس کے ظلم و ستم کے 15سال بعد آج بھی گجرات کے ’’گھیٹو‘‘ میں 5لاکھ مسلمان جانوروں جیسی زندگیاں گزارنے پر مجبور، دوستو! گزرے کل مودی کے گجرات کا سوچ کر اور آج مودی کے ہندوستان کو دیکھ کر میں تو اس نتیجے پر پہنچ چکا کہ آپ لاکھ انہیں گھر بلائیں، ہیپی برتھ ڈے منوائیں، کیک کٹوائیں یا مری لنچ کروائیں، مگر نہ یہ بدلنے والے اور نہ ان سے کسی خیر کی توقع۔

.
تازہ ترین