• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوشل میڈیا دنیا بھر میں معلومات تک رسائی کا موثر ترین فورم بن چکا ہے۔2008کے بعد اپنی جڑیں مضبوط کرنے والی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے مالکان آج دنیا کے امیر ترین افراد میں سر فہرست ہیں۔فیس بک،ٹوئٹر،واٹس ایپ اور گوگل سے منسلک سوشل میڈیا ہر دن نئی بلندیوں کو چھورہا ہے۔ عوام کا اخبارات اور ٹی وی چینلز سے زیادہ سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کی طرف دھیان ہوتا ہے۔حتی کہ پڑھے لکھے اور سنجیدہ افراد بھی سوشل میڈیا پر آنے والی معلومات کو سنجیدہ لیتے ہیں۔مگر بدقسمتی سے گزشتہ چند عرصے کے دوران سوشل میڈیا کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔غلط پروپیگنڈا اور شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے جیسے عمل نے لاکھوں لوگوں کو سوشل میڈیا سے متنفر کیا ہے۔سماجی رابطوں کی ایپلی کیشنز کی جو تھوڑی بہت ساکھ رہ بھی گئی تھی،وہ توہین آمیز مواد نے تباہ کرکے رکھ دی ہے۔آج پاکستان میں کوئی ادارہ اور کوئی شخص سوشل میڈیا کی یلغار سے محفوظ نہیں ہے۔وزیر داخلہ چوہدری نثار نے درست کہا ہے کہ کسی کو بھی اداروں کی تضحیک کی اجازت نہیں دے سکتے۔لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہونے والے مواد کی حدود کا تعین کیسے کیا جائے؟ کیا پاکستانی قوم کے لئے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا کی ویب سائٹس ناگزیر ہیں؟ کیا جن ممالک میں سوشل میڈیا پر مکمل پابندی ہے وہ تباہی کی طرف جارہے ہیں؟قارئین کی معلومات کے لئے عرض کرتا چلوں کہ دنیا کے چار درجن سے زیادہ ممالک دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔چین سمیت ایسے کئی ترقی یافتہ ممالک ہیں جہاں پر سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹس پر مکمل پابندی ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کےتحرک پر بات کی جائے تو اس میں باقاعدہ شدت 2012کے بعد آنا شروع ہوئی۔سیاسی جماعتوں کی بات کریں تو سب سے پہلے تحریک انصاف کے چاہنے والوں نے سوشل میڈیا کو اپنا ہتھیار بنانے کی تیاری کی۔2013کے عام انتخابات میں سوشل میڈیا پر مکمل ناکامی کے بعد مسلم لیگ ن نے بھی سوشل میڈیا سیل کی بنیاد رکھنا شروع کی ۔پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی گزشتہ دو سالوں کے دوران سوشل میڈیا پر فوکس کیا۔مگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کبھی بھی اتنی مضبوط نہیں ہوئی جتنی تحریک انصاف ہے۔افسوس ہوتا ہے کہ ملکی سیاست میں عدم برداشت اور بدتمیزی کی بنیاد ڈالنے والی تحریک انصاف کے لوگوں نے ہی سوشل میڈیا پر شرفاء کی پگڑیاںاچھالنے کا آغاز کیا۔ صحافی، ڈاکٹر، سیاستدان، بیوروکریٹس، فوج اور عدلیہ سمیت ہر ادارے پر کیچڑ اچھالنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ایک ٹیسٹ کیس کی ہی بات کرلیں۔یہ خاکسار پیپلزپارٹی،مسلم لیگ ن سمیت کئی دیگر اداروں پر بھی تنقید کرتا ہے۔فوج کے سیاسی کردار کے حوالے سے میرا ہمیشہ سے دوٹوک موقف ہے۔گزشتہ چند عرصے کے دوران پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے حوالے سے کڑی تنقید کرتا رہا ہوں۔مگر کبھی بھی کسی ادارے یا سیاسی جماعت نے اپنا موقف بدتمیزی سے نہیں پہنچایا۔میری رائے سے اختلاف کے باوجود پی پی پی کے لوگوں نے انتہائی مہذب انداز میں اپنا موقف سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔ عسکری اداروں اور سویلین حکومت کے تعلقات پر ریاستی اداروں نے ہمیشہ دلیل سے اپنے موقف پر قائل کرنے کی کوشش کی۔مگر تحریک انصاف کے دوست واحد فریق ہیں جنہوں نے ہمیشہ گالی،ذاتیات اور بازاری زبان کا استعمال کیا۔سابق صدر آصف زرداری نے ایک مرتبہ بتایا کہ بے نظیر بھٹو جب وزیراعظم تھیں اور انہیں علم ہوتا تھا کہ فلاں اخبار میں ان کے خلاف خبر یا کالم لکھا گیا ہے تو محترمہ بے چین ہوجاتی تھیں۔جب تک اس شخص سے براہ راست رابطہ قائم نہ ہوجاتا اور اسے اپنا موقف پہنچا کر قائل کرنے میں کامیاب ہوجاتیں یا پھر اس کی بات سے متفق نہ ہوجاتیں تو سکون سے نہیں بیٹھتی تھیں۔جب سیاسی لیڈران کا ایسا رویہ ہوگا تو آپ سے اختلاف کرنے والا بھی خود آپ کی طرف رجوع کرتا ہے۔شاید عمران خان صاحب کو علم نہیں ہے کہ جب آپ براہ راست کسی کی ساکھ یا کردار پر انگلی اٹھاتے ہیںتو وہ تاحیات آپکا مخالف ہوجاتا ہے۔پھر وہ میرٹ نہیںدیکھتا بلکہ آپکو نقصان پہنچانے کے لئے ذاتی انا کو فوقیت دیتا ہے۔آج تحریک انصاف کو اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہے۔پاناما کیس کے فیصلے سے قبل مسلم لیگ ن کو براہ راست ہدف تنقید بنایا۔دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے انداز گفتگو پر ہمیشہ تنقید کی لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی انہوں نے اس تنقید کا جواب گالی یا بدکلامی سے دیا ہو۔مسلم لیگ ن کے لوگ ہمیشہ اپنا موقف پہنچاتے ہیں مگر مہذب انداز میں۔انتہائی تکلیف کی بات ہے کہ آج تحریک انصاف کے رفقاء نے کیسی اقدار متعارف کراد ی ہیں۔خان صاحب ! عادتیں نسلوںکا پتہ دیتی ہیں۔خدارا اپنی ذاتی اور سیاسی زندگی میں ٹھہراؤ پیدا کریں۔نوجوان نسل کے جذباتی خون سے مثبت فائدہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔
پاناما کیس کے فیصلے کے بعد معزز عدالت کے جن ججز پر غیر مناسب گفتگو کرنے کی کوشش کی گئی۔یہ کسی صورت قابل قبول نہیں تھا۔ مگر خاموش رہا کہ شاید تحریک انصاف کے دوستوں کو بات سمجھ آجائے۔پھر ڈان لیکس کے بعد فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی جوانتہائی افسوسناک عمل ہے۔سول عسکری تعلقات پر میری رائے سب کے سامنے ہے۔ہمیشہ سویلین بالادستی کا قائل ہوں۔لیکن یہ اجازت کسی کو نہیں دی جاسکتی کہ کوئی ہماری فوج اور ہمارے سپہ سالار پر کیچڑ اچھالے اور اس کو برداشت کیا جائے۔فوج کے سیاسی کردار سے اختلاف کرسکتے ہیں تو اس کی تضحیک کرنے والوں سے نمٹنا بھی جانتے ہیں۔ہم من حیث القوم منافقت کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ہم جان بوجھ کر چاہتے ہیں کہ لوگوں کے صبر کا امتحان لیں۔آرمی چیف جنرل قمر باجوہ جو کچھ کررہے ہیں۔یہ ان کا بڑا ظرف ہے۔اگر کوئی شخص اپنے وسیع اختیارات کے باوجود حکمت اور تدبر سے کام لے رہا ہے تو پھر بطور قوم ہمیں بھی اسے سراہنا چاہئےاور اپنی حدو د میں رہنا چاہئے۔چوہدری نثار علی خان ایک دیانتدار اور محنتی آدمی ہیں۔ان کے نظریات سے اختلاف تو کیا جاسکتا ہے مگر ان کی ذات تمام سیاستدانوں کے لئے عملی نمونہ ہے۔بڑی تحقیق اور محنت کرنے کے باوجود مجھے ان کی بددیانتی کا ایک بھی ثبوت نہیں ملا۔ایسے بے باک اور زیرک سیاستدان کی ذمہ داری ہے کہ بطور وزیر داخلہ اس حوالے سے حدود کا تعین کریں یا پھر سوشل میڈیا پر چلنے والے اس سلسلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کردیں۔ایسا بولڈ فیصلہ چوہدری نثار ہی لے سکتے ہیں۔

.
تازہ ترین