• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ویسے تو شاید ’’اقلیت‘‘ کی اصطلاح اپنے طور پر قابل بحث ہے لیکن اگر نیّت ٹھیک بھی ہوتو اس کا استعمال کبھی کبھی ناگزیرہوجاتا ہے ۔ گزشتہ روز لاہور کے کچھ ساتھیوںسے رابطہ کیا تو انداز ہ ہواکہ پچھلے چند برسوں میں صوبہ پنجاب میں سیاسی اور ترقیاتی صورتحال واضح طور پر بہتر ہوئی ہے ۔البتہ اِس نکتے پر کوئی خاص رائے سامنے نہیں آسکی کہ صوبے میں اقلیتوں کے خلاف کارروائیوں میں ملوث عناصرکی سرکوبی میں کامیابی کاتناسب کیاہے۔گزشتہ چند برسوں کے دوران اقلیتوں کے خلاف پنجاب میں کئی پر تشدد واقعات رونما ہوئے ۔ عام تاثر تھا کہ ان واقعات میں ملوث افرادکی زیادہ تر پناہ گاہیں صوبے کے جنوبی علاقوں میں واقع ہیں اور یہ کہ کوئٹہ اور سندھ میں فرقہ وارانہ خونریزی میں ملوث عناصر کے تانے بانے بھی اِنہیں علاقوں سے ملتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ ترقیاتی اورمعاشی محاذوں پربہتر کارکردگی کے بعد پنجاب حکومت کا اگلا ہدف یہ عناصر ہی ہوں لیکن اقلیتوں کے خلاف تعصب اور اس مسئلے پر ریاستی بے حسی کے تسلسل کے سبب ملک میں اقلیتی آبادی گھٹتی جارہی ہے۔ حالانکہ اقلیت کی جانب سے کوئی نصف صدی پر محیط حسن سلوک کا ایک طویل سلسلہ ہم پر آج بھی ادھار ہے ۔ میں خاص طور پر پنجاب سے مخاطب ہوں۔
یقین نہیں آتا کہ مہا راجہ رنجیت سنگھ کے دور میں ایک شخص کوبھی موت کی سزا نہیں دی گئی ۔کہا جاتا ہے کہ اِس کے دور میں لاہور کی سنہری مسجد کو سکھوں کے قبضے سے چھڑا کر پہلے مسلمانوں کے حوالے کیا گیا اورپھر سرکاری خرچے پر اس کی تعمیر نو کی گئی مہاراجا کی خاص دلچسپی کی بدولت حضرت داتا گنج بخش ؒکے مزار کی آرائش بھی کی گئی ۔ ایک مسلمان خطاط نے قرآن ِکریم کو خاص انداز میں تحریر کرنے میں کئی سال انتھک محنت کی لیکن اس کے ہنر کا کوئی قدر دان نہ ملا۔ لہٰذا اِس نے یہ نسخہ نظام کے سامنے پیش کرنے کے لئے دکن جانے کا فیصلہ کیا! مہاراجہ کو جوںہی اس بات کا علم ہوا ، اس نے خطاط کو بلواکراسے ایک لاکھ روپے کے نقد انعام سے نوازا؟ تاریخ کے ہر ایماندار طالب علم کو مغلوں کے دور میں سکھوں کے حالات کا علم ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے باوجود جب رنجیت سنگھ نے سلطنت خالصہ کی بنیاد ڈالی تو کسی ایک مسلمان کو بھی انتقام کی بھینٹ نہیں چڑھا یا گیا۔ لیکن یہ بات بھی شایدکچھ لوگوں کے لئے قابل بحث ہو! یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رنجیت سنگھ کے خلاف کسی مسلمان جرنیل نے کبھی بغاوت نہیں کی ۔ اِس پر جواب آسکتا ہے کہ مسلمانوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا گیاتھا کہ وہ کسی بھی قسم کی بغاوت کرتے ! سچ ہے کہ پنجاب میں بسنے اور صوبہ چلانے والوں کو اگر رنجیت سنگھ کے دور اقتدار سے کچھ سیکھنا ہوتا تووہ بہت پہلے سیکھ چکے ہوتے ۔کیوں کہ اس کی سلطنت کا دارالحکومت لاہور، اس کے زیراثر علاقوں کا بیشتر حصہ اور سلطنت کی بہت سی باقیات اس وقت پاکستان میں موجود ہیں ۔ ویسے بھی ہمارے ہاں تاریخ بینی ، لسانیات اور ریاستی امور پرحوالوں کے لئے علاقائی حالات ، مقامی اقدار اور مقامی تاریخ کو معیار بنانے کے بجائے عموما تر ک ، عرب اور فارس کی تاریخ اور ثقافت کو اہمیت دی جاتی رہی ہے ۔ سوچ رہا ہوں کہ اگر پاکستان میں کوئی رنجیت سنگھ کی تاریخ میں دلچسپی نہیں رکھتا تو کیوں نہ میں اس کے دور سے کچھ سیکھ لینے کی درخواست سرحد کے اُس پارایک ہندوستانی سے کرکے دیکھ لوں ! اِس ہندوستانی کانام سونو نگم ہے! یہ بالی وڈ کے ایک معروف اداکار ہیں ۔ میں ذاتی طور پر انہیں بحیثیت گلوکار ایک بڑا ٹیلنٹ مانتا رہا ہوں ۔ کچھ عرصے سے شاید اِن کے پاس کام نہیں تھا ؛ لہٰذا انہوں نے فلم سازوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ایک عجیب سی حرکت کر ڈالی۔ ایک ٹوئٹ میں انہوں نے اذان فجر کے وقت اپنے جاگنے سے متعلق کوئی بات لکھ کرایک تنازع کھڑا کردیا ! ویسے تو انہیں فوراً اپنے ہی ہم مذہب اور ہم وطنوں سے خاصے کھرے کھرے جواب سننے کو مل گئے لیکن مہا راجا رنجیت سنگھ نے اس مسئلے پر کیا قدم اٹھا یا تھا، سونو کے لئے یہ جاننا بہت ضروری ہے ۔
یہ اس دور کی بات ہے جب رنجیت سنگھ کی سلطنت ایک طرف جنوب مشرق میں دلّی کو چھورہی تھی اور دوسری طرف شمال مغرب میں کابل تک پھیلی ہوئی تھی ۔ کہتے ہیں کہ اُس وقت اِس خطے میں واقع مسجد وں، گرجا گھروں ، مندروں اور گردواروں میں مہاراجاکی اچھی صحت ، لمبی زندگی اور فتوحات کے لئے دعائیں مانگی جاتی تھیں ۔ لیکن ایک بار کچھ کٹّر اکالی سکھ اس کے دربار میں حاضر ہوئے ۔مہا راجا کو بتایا گیا کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ مساجد سے دی جانے والی اذانِ فجر پر پابندی عائد کردی جائے تاکہ وہ صبح کے اِس پہر اپنی نیندیں پوری کرسکیں۔ مہاراجا کوئی معمولی سمجھ بوجھ والا آدمی نہیں تھا ؛ اس نے فریادیوں کو مایوس نہیں کیااور اذان فجر پر پابندی کا حکم جاری کردیا؛ لیکن ا س شرط پر کہ پابندی کا مطالبہ کرنے والے افراد روزانہ اذان فجر کے وقت مسلمانوں کے گھروں پر جاکر دستک دیں گے تاکہ وہ نماز ادا کرنے کے لئے جاگ سکیں ! فریادی رضامند ہوگئے ۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ تمام فریادی دوبارہ دربار میں حاضر ہوئے ۔ مہاراجہ کو بتایا گیاکہ فریادیوں کے لئے روزانہ صبح اُٹھ کر مسلمانوں کو جگانا مشکل ہوتا جارہا ہے لہٰذا اُنہیں اب اذانِ فجر پرکوئی اعتراض نہیں ہوگا! سونو نگم کو یہ بات سمجھ میں آئے یا نہیں، اس خطے میں بسنے والے ہر اہل عقل کواس واقعہ سے یہ سبق ضرور ملتا ہے کہ حساس مذہبی معاملات میں ریاست کا غیر معمولی حد تک فعال ہونا ضروری ہوتاہے۔ ان معاملات میں ریاست کی جانب سے کسی بھی قسم کی بے نیازی ، لا پروائی یا نیت میں کوئی معمولی ساخلل، اُن غیر معمولی حالات کا سبب بن سکتا ہے جن کا ملک کو برسوں سے سامنا ہے ۔
کہتے ہیں کہ مہاراجا رنجیت سنگھ کی 40سالہ حکمرانی کے کسی بھی دور میں، سلطنت ِپنجاب کے کسی بھی کونے میں ، کسی بھی شخص کو، کسی بھی مذہب، فرقے ، ذات یا نظرئیے کی بنیا د پرظلم و ستم کا نشانہ نہیں بنایاگیا ۔پنجاب کے اِس حکمران سے متعلق تاریخ نویسی کے عمل میں کسی جھول کا امکان یقیناً موجود ہے ۔ کہنا صرف یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے ساتھ اِس کے حسن سلوک کے اَن گنت قصوں میں ذرا سی بھی سچائی موجود ہے تو پھرآج اس ملک میں زیر عتاب اقلیتوں کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوگا مہاراجا سے لیا ہوااُدھار سمجھ کر ہی سہی !

.
تازہ ترین