• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دیکھنا اور تھوڑا سا غور کرنا بھی تخلیقی عمل ہے۔ جب ہر طرف تبصروں اور تجزیوں کی شدید بارش برس رہی ہو اور بارش کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار اولے بھی برس رہے ہوں تو رک کر دیکھنا اور غور کرنا رائے سازی میں مدد دیتا ہے ورنہ توبارش اور اولے مل کر کنفیوژن پیدا کرتے ہیں اور انسان کسی واضح نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا۔
55مسلمان ممالک کی ریاض میں کانفرنس ہو چکی، سعودی مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ صدر ٹرمپ کے تلوار ہاتھ میں پکڑ کر ڈانس کی پوری دنیا میں دھوم مچ چکی، ٹرمپ کی بیوی اور بیٹی نے سر پر ہلکا سا کپڑا رکھ کے سر ڈھانپنے کی رسم سے بغاوت کر کے امریکی عوام کو کھلا پیغام دے دیا کہ وہ اسلامی آداب و اطوار کی پروا نہیں کرتیں۔ یہی خواتین جب بیت المقدس میں دیوار گریہ بھی پہنچیں تو اُن کے چہروں پر راہبانہ تاثرات دیکھے جا سکتے تھے جبکہ ریاض میں ان کے چہروں پر حیرت نمایاں تھی۔ یہی خواتین جب پوپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو مارے ادب کے سر ڈھانپ لئے کہ اُن پر ادب صرف اپنے مقدس مقامات پر واجب ہے، دوسرے مذاہب کے مقامات پر نہیں۔ گزشتہ کچھ دنوں سے عالمی میڈیا پر ریاض کانفرنس چھائی رہی، امریکی میڈیا کا ایک چھوٹا گروپ ٹرمپ کی حکمت عملی پر خوشی کا اظہار کرتا رہا کہ ٹرمپ نے اپنے پہلے غیرملکی دورے میں سعودی عرب جا کر نہ صرف مسلمان ممالک پر امریکی قوت، ہیبت اور امریکی غلبے کی دھاک بٹھا دی اور سعودی عرب سے اربوں ڈالر کے معاہدے کر کے امریکہ کی اسلحہ ساز صنعت کی رگوں میں تازہ خون شامل کر دیا بلکہ مسلمانوں کو بھی کسی حد تک ’’بیوقوف‘‘ بنانے میں کامیاب رہا۔ سادہ لوح مسلمان صرف اسی ادا پر قربان ہوتے رہے کہ امریکی صدر نے سعودی عرب سے اپنے پہلے غیرملکی دورے کا آغاز کر کے انہیں عزت بخشی ہے بلکہ انہیں براہ راست دیدار اور ’’زیارت‘‘ کا موقع دے کر 55مسلمان ممالک کے حکمرانوں پر احسان عظیم کیا ہے۔ بیوقوف بنانے میں امریکی صدر اس قدر کامیاب ہوئے کہ ریاض میں موجود مسلمان ممالک کے حکمران ٹرمپ کی خوشامد کرنے اور اک نظر التفات حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر بازی لے جاتے رہے۔ ایک مسلمان حکمران نے کہا آپ ناممکن کو ممکن بنا دیتے ہیں تو ٹرمپ نے فوراً فقرہ کسا ’’آپ ٹھیک کہتے ہیں‘‘ دوسرے نے کہا آپ نہایت خوبصورت اسلحہ بناتے ہیں تو ٹرمپ مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ دل ہی دل میں سوچتا ہو گا کہ ہماری اسلحہ ساز فیکٹریاں تو آپ کی بیوقوفی کے طفیل زندہ ہیں۔ اللہ نے آپ کوتیل کے ذریعے مفت اور بے پناہ دولت سے نوازا ہے جبکہ ہم اپنی حکمت عملی سے وہ دولت آپ کے خزانوں سے نکالنے اور امریکہ لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف اللہ کی نعمت اور دوسری طرف ذہانت کا استعمال اور سچ یہ ہے کہ ذہانت نعمت پر حاوی ہو چکی ہے۔
آپ ناراض نہ ہوں کہ میں اسلامی ممالک کی کانفرنس کے بجائے مسلمان ممالک کی کانفرنس کہہ رہا ہوں۔ یہ میری ذاتی رائے ہے کیونکہ اگر آپ تجزیہ کریں تو دکھ کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان 55مسلمان ممالک میں صرف چند ایک اپنے آئین اور اعلانیے کے مطابق اسلامی ممالک ہیں ورنہ ان میں اعلان شدہ سیکولر بلکہ چند ایک کمیونسٹ و سوشلسٹ ممالک بھی شامل ہیں جو صرف اس لئے ’’اسلامی‘‘ برادری کا حصہ سمجھے جاتے ہیں کہ ان ممالک کی آبادی کی اکثریت مسلمان ہے ورنہ ان کی ذاتی زندگیوں، دساتیر، اطوار، قومی و سیاسی زندگی پر کہیں بھی اسلام کی پرچھائیں نظر نہیں آتی۔ اس لئے آبادی کے حوالے سے انہیں مسلمان ملک کہا جا سکتا ہے لیکن ان پر اسلامی ملک کا لیبل نہیں لگایا جا سکتا۔
دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ سعودی عرب اور امریکہ نے تو اس کانفرنس کے ذریعے اپنے اہداف بظاہر حاصل کر لئے۔ سعودی عرب نے ایران اور کچھ دوسرے ممالک پر اپنے رعب اور قوت کا عکس ڈالنا تھا، وہ وقتی طور پر اس میں کامیاب رہا لیکن غور کریں تو یہ کامیابی عارضی دکھائی دیتی ہے کیونکہ گزشتہ ایک صدی کی تاریخ اس سچ کی گواہی دیتی ہے کہ محض کانفرنسوں اور اعلامیے جاری کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ بالآخر اپنے دامن میں لگی آگ خود ہی بجھانی پڑتی ہے۔ ویسے سعودی عرب نے امریکہ کا چہرہ دکھا کر رعب و داب کا پیغام دے دیا اور امریکہ سے خریدے ہوئے اینٹی میزائل سسٹم کو کامیابی سے استعمال کر کے یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ اپنے آپ کو محفوظ بنا چکا ہے۔ یمن کی دشمن فوجوں کی جانب سے پھینکے گئے 99فیصد میزائل سعودی عرب کے نظام نے فضا میں ہی ناکارہ بنا دیئے اور زمین تباہی سے بچ گئی۔ اب امریکہ سے 110ارب ڈالر کا مزید نیا اسلحہ خرید کر سعودی عرب فوجی قوت کے حوالے سے مزید طاقتور ہو جائے گا لیکن وہ مسلمان بھائی چارہ، اسلامی ملت و اخوت اور اسلامک برادر ہڈ کہاں گئی۔ مسلک سے بلند ہو کر اسلامی برادر ہڈ کا سہارا لے کر اگر ایران سے اختلافات رفع کر لئے جائیں تو شاید امریکی اسلحہ ساز فیکٹریاں اپنی پیداواری صلاحیت محدود کرنے پر مجبور ہو جائیں اور شاید یمن، شام اور عراق کا مسئلہ بھی حل ہو جائے۔ مسئلہ حل نہ بھی ہو لیکن شاید آگ کے شعلوں پر قابو پایا جا سکے۔ ایسا ہو جائے تو بیچارا امریکہ کیا کرے گا، اس کا سارا کاروبار سیاست ہی مسلمانوں کے نفاق اور باہم کشت و خون سے چلتا ہے۔ اس لحاظ سے سب سے بڑی کامیابی ٹرمپ کو ملی جو مسلمانوں میں نفاق کی لکیروں کو پھیلانے اور مزید گہرا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اسے اپنے میزبان (HOST) کا ایران مخالف اعلانیہ سوٹ کرتا تھا۔ مسلمان ہی مسلمان کا خون بہائیں، آپس میں لڑتے مرتے رہیں، امریکہ سے اسلحہ خریدتے رہیں اور جہاں ضرورت پڑے ’’ٹوہر‘‘ بنانے کے لئے امریکہ کا دست شفقت استعمال کریں، یہی ٹرمپ کا ہدف تھا اور اس میں وہ کامیاب رہا۔
پاکستانیوں کو اسلامی جذبے، دوسرے بڑی مسلمان مملکت، روس کے خلاف جہاد سے لے کر دہشت گردی کے خلاف قربانیوں اور جہاد تک اور پھر واحد مسلمان ایٹمی قوت ہونے کے سبب ایک زعم اور حسن ظن ہے جس کے تحت وہ پاکستان کے لئے غیرحقیقی رول اور اہم کردار کا خواب دیکھتے ہیں۔ 55مسلمان ممالک کی اس کانفرنس نے پاکستانیوں کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے اور انہیں واضح پیغام دیا ہے کہ بقول ایک امریکی پروفیسر کے (It is the Economy IDIOT) یعنی جب تک آپ کی معیشت مضبوط و خوشحال نہیں ہوتی اور آپ کے ہاتھوں سے کشکول نہیں گرتا، آپ کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہو گا اور آپ کی ایٹمی قوت آپ کو عزت نہیں دلا سکے گی۔ عزت حاصل کرنے کے لوازمات کچھ اور ہیں۔ ذرا سوچیں اگر جنرل ایوب یا ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے حکمران ہوتے تو کیا ریاض میں اُن کے ساتھ یہی سلوک ہوتا؟ عزت کمانی پڑتی ہے۔ عزت خود چل کر نہیں آتی۔

.
تازہ ترین