• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خوش قسمتی سے29؍اپریل کی ہیجانی کیفیت جو ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کی ٹویٹ سے پیدا ہوئی تھی، اِس سے جلد عوام باہر نکل آئے اور چودہ اور پندرہ مئی کے واقعات نے ان کے سامنے ایک تابندہ مستقبل کا انتہائی خوبصورت نقشہ پیش کر دیا۔ چینی قیادت نے ’ون بیلٹ ون روڈ‘ فورم کے زیرِ اہتمام ایک عظیم الشان عالمی کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں تیس ملکوں کے سربراہ اور ساٹھ ممالک کے پندرہ سو نمائندے شریک ہوئے۔ ان میں پاکستان کے وزیراعظم، روس کے صدر اور اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل غیر معمولی اہمیت کے حامل تھے۔ اِس دو روزہ کانفرنس میں چین کے صدر جناب شی چن پنگ نے وزیراعظم نوازشریف کو اپنے ساتھ ساتھ رکھا اور اُنہیں مرکزی حیثیت دی۔ وہ ماؤزے تنگ اور چواین لائی کے بعد چین کی سب سے طاقتور شخصیت ہیں اور مستقبل میں دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا کہ ہم ملکوں، خطوں اور براعظموں کے مابین تجارت کے راستے کشادہ کرنا اور مستحکم معیشت کے ثمرات میں پس ماندہ اقوام کو شراکت دار بنانا چاہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تین براعظم، ایشیا، افریقہ اور یورپ بری، بحری اور فضائی راستوں کے ذریعے ایک دوسرے کے بہت قریب آ جائیں گے اور جدید ترین ذرائع مواصلات کا ایک جال دور دراز علاقوں تک پھیل جائے گا۔ چین پاک اقتصادی راہداری اِس عظیم الشان پروگرام کا ایک حصہ ہے جو اپنی اسٹرٹیجک اہمیت کی بدولت ایک بے حد مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ چین شاہراہوں، بندرگاہوں اور ریل کی پٹریوں کی تعمیر پر اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے اور پس ماندہ خطوں کی صنعتوں میں سرمایہ لگا رہا ہے۔ صرف پاکستان میں اس نے پچاس ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے جس کے باعث ہمارے عزیز وطن میں ایک زبردست معاشی انقلاب آ سکتا ہے اور مشرق سے جو ایک نیا عالمی نظام طلوع ہو رہا ہے، اِس میں وہ انتہائی کلیدی مقام کا حامل ہو گا۔ اس کی گوادر بندرگاہ عالمی تجارت کا مرکز بن جائے گی اور نئے ریلوے ٹریک بچھ جانے سے پشاور اور کوئٹہ کی مسافت صرف چھ گھنٹے رہ جائے گی۔ اِس کے علاوہ راہداری سے جو محصولات وصول ہوں گے، ان سے تمام بیرونی قرضے اُتارے جا سکیں گے۔ ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے سے آدھی دنیا فیض پائے گی اور اسے سامراجی طاقتوں سے نجات پانے کا تاریخی موقع میسر آجائے گا۔
پاکستان پر جو نئے نئے امکانات کی بارش ہو رہی ہے، اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے ادا کرنے کا سلیقہ سیکھنا، اپنی استعدادِ کار میں اضافہ کرنا اور چینی ماہرین کے دوش بدوش کام کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا ہو گا۔ تربیت یافتہ افراد بہت بڑی تعداد میں درکار ہوں گے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے نوجوانوں کو منظم رویوں اور تخلیقی صلاحیتوں کو پوری توانائی کے ساتھ بروئے کار لانا ہوگا۔ اس کے علاوہ چینی عوام کی نفسیات سمجھنے کے لیے بڑے پیمانے پر چینی زبان سیکھنا، علم و ہنر کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کرنا اور ہمہ وقت مستعد اور چوکس رہنا ہوگا۔ بھارت نے سی پیک منصوبے کے خلاف باقاعدہ اعلانِ جنگ کر رکھا ہے جسے ایک حد تک امریکہ اور بعض دوسرے ممالک کا تعاون بھی حاصل ہے۔ بھارتی ایجنٹ اس منصوبے کے بارے میں شوشے چھوڑتے اور عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کے جالے بُنتے رہتے ہیں۔ ان کے گمراہ کن پروپیگنڈے کے مؤثر سدِباب کے لیے اس منصوبے کے بارے میں عوام تک مستند معلومات فراہم کرتے رہنا ازحد ضروری ہوگا تاکہ وہ بدخواہوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں اور منصوبوں کی تکمیل کے لیے اپنی جان لڑا دیں۔ بیجنگ کانفرنس میں چاروں وزرائے اعلیٰ کی شمولیت نے قومی یکجہتی اور سیاسی ہم آہنگی کا ایک جانفزا پیغام دیا ہے جبکہ بھارت اس خطے میں تنہا ہوتا جا رہا ہے۔
اِسی ماہ کی اکیس تاریخ کو ریاض میں پچاس کے لگ بھگ ملکوں کی عرب، اسلامی، امریکی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی جس کے مہمانِ خصوصی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تھے۔ انہوں نے اپنے پہلے دورے میں سعودی عرب آنے کا فیصلہ کیا اور یہ تاثر دیا کہ وہ اسلام، یہودیت اور نصرانیت کے تینوں مقدس مقامات کا دورہ کریں گے اور یوں عالمی امن کو فروغ دیں گے۔ پچاس کے لگ بھگ مسلم حکمرانوں اور ان کے نمائندوں نے اُن کا خیرمقدم کیا۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے سعودی عرب کے فرماںروا شاہ سلمان نے وزیراعظم نوازشریف کو خصوصی دعوت دی۔ چالیس مسلم ممالک کا فوجی اتحاد قائم ہونے کے بعد یہ پہلی عالمی کانفرنس تھی۔ شاہ سلمان نے اپنے خطاب میں مسلم اُمہ کو دہشت گردی کے خلاف اپنی طاقت منظم کرنے کی دعوت دی اور اس کے ساتھ یہ قطعیت سے کہا کہ ایران دہشت گردی کا گڑھ ہے اور 1979ء کے انقلاب کے بعد وہ فرقہ وارانہ نفرتوں اور پُرتشدد سرگرمیوں کو ہوا دے رہا ہے جس کے باعث پورا شرقِ اوسط خون میں لت پت ہے۔ صدر ٹرمپ نے اِسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مسلم امہ پر زور دیا کہ ایران کو تنہا اور بے دست و پا کرنا ضروری ہو گیاہے۔ وہ اسرائیل کی محبت کے گیت گاتے رہے اور اس غم میں گھلتے نظر آئے کہ بھارت کو دہشت گردی کا سامنا ہے حالانکہ وہ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسند کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے۔ افسوس اور دکھ کی بات یہ کہ انہوں نے پاکستان کو نظر انداز کیا جس نے دہشت گردی کا انتہائی پامردی سے مقابلہ کرتے ہوئے ہزاروں جانوں کی قربانیاں دی ہیں اور 120؍ارب کا معاشی نقصان اُٹھایا ہے۔
اُن کے اس غیر دانش مندانہ رویوں سے پاکستان سودوزیاں کی ایک بہت بڑی آزمائش سے دوچار ہو گیا ہے۔ ایک طرف سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں ہیں جن کے ساتھ اس کے بنیادی اہمیت کے مفادات وابستہ ہیں۔ سعودی عرب تو آزمائش کی ہر گھڑی میں دوستی کے انتہائی اعلیٰ معیار پر پورا اُترا ہے اور پاکستان اس کے ساتھ اپنے رشتے نئی بلندیوں تک پہنچانے کا آرزومند ہے۔ دوسری طرف ایران ہے جس سے ہماری سرحدیں ملتی ہیں۔ اس نے پاکستان کے قیام کو سب سے پہلے تسلیم کیا اور 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں ہمارے لڑاکا طیاروں کو تحفظ دیا تھا۔ عرب و عجم کے مابین صدیوں سے آویزش چلی آ رہی ہے جسے مزید گہرا کرنے کے بجائے تحلیل کرنے اور شاعر مشرق حضرت اقبال کے اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے کہ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے۔
پاکستان کو ریاض میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف قائم ہونے والے مرکز کا حصہ بننے سے پہلے تمام پہلوئوں کا جائزہ لینا اور اس امر کا ادراک بھی حاصل کرنا ہوگا کہ ایران کے خلاف پچاس مسلم ملکوں کا اتحاد کس بنیاد پر قائم ہوا ہے اور اس کے کیا کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ بلاشبہ ایک طرف ایران کو طاقت اور سرمایے کے ذریعے اپنا انقلاب دوسرے ملکوں میں برآمد کرنے اور بھارت کے زیرِ اثر دہشت گردی اور انتہاپسندی کو غذا فراہم کرنے کی پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی اور دوسری طرف مسلم اُمہ کو بین المسالک اور بین المذاہب مکالمے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا ہو گا۔ مکالمے ہی سے مغرب میں اسلام پھیل رہا ہے اور یہی مکالمہ ملت کے اندر فکری وحدت اور ذہنی ہم آہنگی پیدا کر سکتا ہے۔ میرے کانوں میں آج بھی حضرت آیت اللہ خمینی کے الفاظ گونج رہے ہیں جو انہوں نے 1980ء کے اوائل میں مجھے جنوبی تہران میں ملاقات کا شرف عطا کرتے ہوئے فرمائے تھے کہ ’’ہم حضرت عمرؓ کا نظامِ عدل قائم کریں گے۔‘‘


.
تازہ ترین