• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد (اسرار خان / خالد مصطفیٰ) پاکستان کی معیشت 2013ء سے مسلسل اور تیزی کے ساتھ قرضوںکے بوجھ تلے دبتی جا رہی ہے اور آج معیشت 46 فیصد (6.55 کھرب روپے) کے اضافے سے یہ قرضے 20.872 ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔ اگر آج پاکستان اپنے تمام سرکاری قرضے ادا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے اپنی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے دو تہائی حصے سے دستبردار ہونا پڑے گا، یہ جی ڈی پی کا 67.6 فیصد حصہ بنتا ہے۔ اِس وقت ملک کی جی ڈی پی کا حجم 31.86؍ کھرب روپے ہے۔ اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ پاکستان نے مالیاتی ذمہ داریوں اور قرضوں کے محدود کرنے کے قانون (ایف آر ڈی ایل اے) کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس قانون کے مطابق قرضوں کی سطح جی ڈی پی سے 60 فیصد کم رکھنا ہوتی ہے۔ پاکستان کے اقتصادی سروے برائے 2016-17ء کے اعداد و شمار کے مطابق، ہر پاکستانی شہری ایک لاکھ 4 ہزار 516 روپے کا مقروض ہے اور یہ اس رقم سے کہیں زیادہ ہے جو حکومت صحت اور بچوں کی تعلیم پر خرچ کرتی ہے۔ 2001ء میں پاکستان کے سرکاری قرضے (ملکی اور بیرونی) 3.68؍ کھرب روپے تھے اور 2008ء میں جنرل پرویز مشرف کے اقتدار چھوڑنے پر یہ تقریباً دوگنا بڑھ کر 6.126 کھرب روپے تک جا پہنچے۔ لیکن پیپلز پارٹی کی پانچ سال کی حکومت کے بعد ان قرضوں میں اضافہ ہوا اور یہ 14.318؍ کھرب روپے تک جا پہنچے۔ اب تک نواز شریف کی حکومت میں یہ قرضے 20.872 کھرب روپے تک پہنچ چکے ہیں جس میں 14.748 ملکی اور 6.124 کھرب روپے بیرونی قرضہ جات ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے بیرونی قرضے 58.4 ارب ڈالرز ہیں لیکن اگر سرکاری ضمانت کے تحت قرضے، نجی شعبے کے قرضے اور دیگر غیر ملکی واجبات کو ملایا جائے تو یہ 75.7 ارب ڈالرز تک جا پہنچیں گے۔ ماہرین اقتصادیات کہتے ہیں کہ سرکاری قرضے اس وقت بڑھ جاتے ہیں جب کوئی ملک اپنے وسائل (ٹیکس اور دیگر) کے ذریعے اپنے اخراجات پورے کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے اور اس خلا (جسے مالی خسارہ کہتے ہیں) کو پُر کرنے کیلئےحکومت ملکی و غیر ملکی اداروں سے قرضہ لیتی ہے۔ سرکاری قرضے اس خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں کہ مالی سال 2016-17ء کے صرف 9 ماہ میں ان کی ادائیگی میں 1.410؍ کھرب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سرکاری قرضوں کی ادائیگی میں ملک کی تمام تر آمدنی کا 45؍ فیصد حصہ خرچ ہو چکا ہے۔ 2016-17ء کے اقتصادی سروے کے مطابق، 2015-16 کے قرضوں کی ادائیگی کیلئے صرف 9 ماہ میں ٹیکس دہندگان کی رقم سے 85؍ ارب روپے خرچ کیے جا چکے ہیں جبکہ اب تک حکومت قرضون کی ادائیگی کی مد میں 1.009 کھرب روپے ادا کر چکی ہے۔ مارچ 2017 تک قرضوں کی سطح بڑھ کر 20.873 کھرب روپے ہو چکی ہے جبکہ مجموعی سرکاری قرضے 18 ہزار 893 ارب روپے کے ہیں۔ ملکی قرضوں میں 1.121 کھرب روپے کا اضافہ ہوا ہے تاہم وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ایف آر ڈی ایل کے قانون کے تحت حکومت قرضوں کی سطح کم کرکے جی ڈی پی کے 59.3 فیصد حصے تک لانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ 2008 میں قرضوں کی سطح جی ڈی پی کے 53.1 فیصد حصے کے برابر تھی جو 2013 میں بڑھ کر 60.2 فیصد تک پہنچ گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ معیشت کا حجم (جی ڈی پی) 300 ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہے اسلئے جی ڈی پی میں قرضوں کا فیصدی حصہ بہت کم ہوگیا ہے۔
تازہ ترین