• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران دودھ کےدھلے نہیں،اکبربابرانکے کیخلاف کیس لائے ہیں،مائزہ حمید

کراچی (ٹی وی رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری انفارمیشن فیصل جاوید کا پی ٹی آئی کی غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے جیو کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے  کا کہنا تھا کہ یہ غیر ملکی فنڈنگ نہیں ہے،یہ جو بیرون ملک پاکستانی ہیں،وہ فنڈ کرتے ہیں پارٹی کو یہ آتے بیرون ملک سے ہی ہیں اور بینکنگ چینلز کے ذریعے آتے ہیں جس کے تمام ثبوت موجود ہیں،یہ واحد پارٹی ہے پاکستان میں جس کی فنڈنگ لوگ کرتے ہیں۔اس پروگرام میں پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر روبینہ خالد اور ن لیگ کی رکن قومی اسمبلی مائزہ حمید نے بھی حصہ لیا اور اپنی گفتگو میں اپنی اپنی پارٹی کا دفاع کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ مائزہ حمید کا کہنا تھا کہ فارن فنڈنگ کوجوازفراہم کرنا تو دور کی بات جن چیزوں پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا ن لیگ کو وہ ساری چیزیں عمران خان کے لئے جائز ہیں ۔ جو لوگ پیسے دیتے ہیں ان کا بھی کوئی فارن ایجنڈا ہوتا ہے آپ پی ٹی آئی کا ریکارڈ دیکھ لیں جب سے یہ پاور میں آئے ہیں کے پی کے میں تو کچھ ناں کچھ ہوتا رہا ہے جس میں پاکستان کو روکنے کی مہم چلتی رہی ، جب آپ کا ایجنڈا پاکستان دشمن ایجنڈا ہو تو پھر فارن فنڈنگ کوجواز فراہم کرنا ضروری ہے ۔ سیاست کا دوہرا معیار نہیں چلے گا ، عمران خان دودھ کے دھلے نہیں ہیں ، ان کے ممبر اکبر ایس بابر نے یہ کیس عدالت میں لائے ہیں ، ان کو تو انڈین لابی اور یہودی لابی بھی فنڈ کرتی رہی ہے جس کے جواب میں فیصل جاوید کا کہنا تھاکہ ان کے پاس اگر ثبوت ہے تو لے کر آجائیں میں ان کو چیلنج کرتا ہوں ۔ یہ بھی کسی ٹاک شو میں جاتی ہیں تو اپنے ساتھ ناول لے کر جاتی ہیں ، کوئی ثبوت ان کے پاس ہوتا ہی نہیں ہے ۔اکبر ایس بابر ان کے لئے کام کررہا ہے،وہ ہماری پارٹی سے نکالا گیا ہے ۔پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد کا اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہنا تھاکہ بہت دلچسپ صورتحال ہے ، اتنا زیادہ پروپیگنڈا اور جھوٹ اس ملک میں بولا جارہا ہے کہ عوام سمجھ ہی نہیں پارہی کہ کس کی بات کو سچ مانے اور کس کی بات کو جھوٹ ۔ یہاں پر ان پاکستانیوں کی فنڈنگ کی بات نہیں ہورہی جو بار بار پاکستان کو فنڈنگ کرتے ہیں یہاں پر بات ہورہی ہے اس فنڈنگ کی جو پاکستانی شہری بھی نہیں ہیں اور انہوں نے کسی سیاسی جماعت کو فنڈنگ دی ہے تو پھر اس کے لئے اس کی وجوہات دیکھنا ضروری ہیں ۔ الیکشن کمیشن بھی اگر پوچھے گا تو وہ یہی پوچھے گا کہ فارن نیشنل جو کہ ایک مختلف ٹرم ہے ۔ روبینہ خالد کا کہنا تھا کہ دونوں جماعتوں کا مسئلہ مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا ہے کیونکہ بات اگر کیسز کی ہے تو سب سے زیادہ کیسز تو پاکستان پیپلز پارٹی نے بھگتے ہیں اور آج تک بھگت رہے ہیں ان کو بھی چاہئے کہ ایک دوسرے کے خلاف محاذ بنانے کے بجائے عدالتوں میں جائیں جہاں دونوں کو اپنی صفائی کا موقع ملے گا اور عدالت ان کی بے گناہی کا فیصلہ دیدے گی اور یہ بہتر ہوگا اس عدالت سے جو انہوں نے کورٹ کے باہر پتہ نہیں کتنوں ماہ سے لگائی ہوئی ہے ۔ فیصل جاوید کا کہنا تھاکہ ن لیگ کی فنڈنگ آف سورس کا ہمیں پتہ نہیں ہے کہ وہ کہاں سے آتی ہے کیونکہ یہ پولٹیکل فنڈنگ کرتے ہی نہیں ہیں ۔ بیرون ملک پاکستانی ہی پاکستان کو چلارہے ہیں اور وہ پیسہ بھیجتے ہیں پاکستان ۔ غیر ملکی قرضوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 1947 سے لے کر 2008 تک جب تک پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومت نہیں آئی تھی اس کا ٹوٹل قرضہ 6 کھرب تھا اور 2008کے بعد اب تک جو قرضہ ہے وہ 23کھرب پر چلا گیا ہے ، ایک لاکھ 20ہزار روپے کا ہر پاکستانی مقروض ہے ۔حامد میر کے سوال کہ تحریک انصاف کو فنڈنگ بیرون ملک پاکستانی کررہے ہیں یا وہ لوگ کررہے ہیں جو پاکستانی ہیں ہی نہیں کے جواب میں فیصل جاوید کا کہنا تھا سوفیصد بیرون ملک پاکستانی ہی ہمیں فنڈنگ کررہے ہیں جس کی تفصیلات ہماری ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں اور الیکشن کمیشن میں بھی جمع ہیں ۔ حامد میر نے پروگرام میں اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کی تعداد صرف ساڑھے 10لاکھ کے قریب ہے ،ساڑھے 22 کرو ڑ کی آبادی کے اس ملک میں ایک پارٹی دوسرے پرکیا الزام لگائے گی کیونکہ یہاں تو 10لاکھ 48ہزار لوگوں کے علاوہ سارے ہی لوگ ایسے ہیں جن سے سوال پوچھنے کی ضرورت ہے ۔جس کے جواب میں فیصل جاوید کا کہنا تھا یہ بات بالکل درست ہے ، 2012ء میں ہی پی ٹی آئی نے اپنے لوگوں کو کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے اثاثے ڈیکلیئر کریں ۔پارلیمینٹرینز ٹیکس ادا نہیں کرتے ہیں،ہر بار ہم بولتے ہیں ٹیکس بڑھانے سے کچھ نہیں ہوگا لیکن ان ڈائریکٹ ٹیکس بڑھاتے ہیں جو غریب عوام پر بوجھ بنتا ہے ۔حامد میر کے سوال کہ جن لوگوں نے اس ملک میں 3سو ارب روپے کی بلیک اکانومی چلائی ہوئی ہے ان لوگوں پر آپ ٹیکس لگانے میں ناکام ہے جس کے جواب میں مائزہ حمید کاکہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں جو اکنامک پروگریس ہے اس کو انٹرنیشنل سطح پر ریکگنائز کیا جارہاہے ۔ 26فیصد بجٹ ہم اس دفعہ اسٹریکچر اور انرجی پر لگارہے ہیں ،47 فیصدہائر ایجوکیشن پر لگایا جارہا ہے ۔ حامد میر کے سوال کہ وزیراعلیٰ سندھ تواسمبلی فلور پر تقریر کرکے کہتے ہیں کہ میرے ساتھ بڑی زیادتی ہورہی ہے،کے حوالے سے بات کرتے ہوئے روبینہ خالد کا کہنا تھاکہ فیڈرل گورنمنٹ کا یہ اچھا اقدام ہے کہ وہ این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے حصہ دے رہی ہے تو وہ ان صوبوں کا حق ہے یہ کسی کو آپ خیرات  کے طور پر نہیں دے رہے ہیں اور نہ ہی فیور دے رہے ہیں ۔ ہمارے لئے یہ بات ہی شرم کی ہے کہ 22کروڑ کی آبادی میں صرف 10لاکھ لوگ ٹیکس ادا کررہے ہیں ۔ اور ان لوگوں کی بھی مجبوری ہے کیونکہ وہ ڈاکیومینٹیڈ اکانومی ہے ورنہ شاید وہ دس لاکھ بھی نہ ہوں ۔ یہ ہماری ناکامی ہے کہ ہم ٹیکس کلچر ڈیولپ کرنے میں ناکام ہوئے ہیں ۔ حامد میر کے سوال کہ اگر پی ٹی آئی نے کے پی کے میں سب کچھ بدل دیا ہے تو وہاں کے عوام رمضان آنے سے پہلے مہنگائی کا شورکیوں مچاتے ہیں،کے جواب میں فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ اس دفعہ ایسا نہیں ہوگا، کیونکہ ہم لوکل گورنمنٹ کی مدد سے کنٹرول کررہے ہیں۔
تازہ ترین