• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں پھر ایک دھماکہ ہوا۔ پھر کوئی سر پھرا ایک پرسکون جھیل میں پتھر پھینک گیا۔ خود جنت کی تمنّاکرتا ہو ا وہ شخص ایک پورے معاشرے کو دوزخ میں دھکیل گیا۔ بائیس نوجوان خاک و خون میں مل گئے۔ ان میں اکثر کی عمر سولہ برس یا اس سے بھی کم تھی۔ شہر کے بہت بڑے ہال میں ایک نوعمر امریکی گلوگارہ اپنی گائیکی سے بچوں کا جی بہلا رہی تھی۔ محفل ختم ہونے کو تھی۔ گلوکارہ اور پورا مجمع مل کر اس شام کا آخری گانا گارہے تھےOne last timeکہ اسی سرمستی کے عالم میں کسی پر جنون کی کیفیت طاری ہوئی۔ اس نے ایک لمحے میں خود اپنے پرخچے اڑا لئے اور بائیس نہتّے اور بے قصور نوجوانوں اور بچوںکو لمحہ بھر میں مار ڈالا۔ ساٹھ کے قریب افراد بری طرح زخمی ہوئے۔ پھر جو بھگدڑ مچی اس میں نہ جانے کتنے لوگ مجروح ہوئے ہوں گے۔ نوجوان گلوکارہ کے مداح ایسے تھے جو اس محفل کے ٹکٹ تین تین مہینے پہلے یا تو خرید چکے تھے یا والدین نے کرسمس یا سال گرہ کے تحفے کے طور پر دلوائے تھے۔ اس وقت سے بچّے اپنے اپنے ٹکٹ کے ساتھ اپنی سیلفیاں بنا بنا کر خوش ہو رہے تھے مگر آنیوالے وقت کا منظر نہ ان کے وہم میں تھا نہ ان کے گمان میں۔ کتنے ہی والدین اپنے بچّوں کو وہاں پہنچا کر گئے تھے اس وعدے کے ساتھ کہ پھر ملیں گے ۔ نہ جانے کتنے تو یہ وعدہ وفا نہ کر سکے اور کتنے ہی آپریشن تھیٹر میں موت اور حیات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ایسے حالات میں جو شے حیرت زدہ ہے وہ عقل ہے۔ یہ قتل عام کرنے والے شخص کے ماں باپ افریقہ کے ملک لیبیا سے گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے او ر سیاسی پناہ کی بھیک مانگتے ہوئے برطانیہ آئے ہوںگے۔ انہیں یہاں بسایا گیا ہوگا اور انہیں کچرے پر سے کھانا چن کر کھانے سے نجات ملی ہوگی۔ یہ بے رحم سفّاک شخص یہاں پیدا ہوا، پلا بڑھا، تعلیم پائی ، دوا علاج کی سہولتوں سے فیضیاب ہوا اور اچھے مکان میں رہنا نصیب ہوا۔ اسی شخص پر یہ کیسی دیوانگی طاری ہوئی کہ اسی پناہ دینے والے معاشرے کے معصوم شہریوں کو روند ڈالا۔
اس قیامت خیز دھماکے کے زخم آسانی سے بھرنے والے نہیں۔ اس غم کا ماتم بہت عرصے جاری رہے گا لیکن جو منظر دھماکے کے فوراً بعد دیکھنے میں آیا اس پر اس قوم کو سلام۔ محفل موسیقی کے خاتمے کے انتظار میں باہر جو سینکڑوں ٹیکسیاں کھڑی تھیں ان کے ڈرائیوروں نے پریشان حال لوگوں کو انکے ٹھکانوں پر پہنچانے کے لئے اپنی گاڑیاں بلا معاوضہ پیش کردیں۔ دوسرے کار والوں نے بھی دہشت زدہ بچوں کو انکےگھروں تک پہنچانا شروع کردیا۔ علاقے کا ایک چائے خانہ کھلا ہوا تھا، اس کے مالک نے لوگوں کو ہر چیز مفت پیش کرنے کا اعلان کر دیا۔علاقے کے باشندے اپنے گھروں سے نکل آئے اور خوف کے عالم میں مبتلا لڑکوں لڑکیوں کو سنبھالنے لگے۔ فٹ پاتھ پر سونے والے دو بے گھر افراد نے ایک آٹھ سال کی بچّی کو گود میں اٹھالیا جس کی دونوں ٹانگیں دھماکے میں اڑچکی تھیں۔ وہ بچی کو اس وقت تک سینے سے لگاتے رہے جب تک ایمبولینس نہیں آگئی۔
کہیں دور بیٹھے ہوئے خود ساختہ خلیفہ نے اسے اپنی زبردست کامیابی قرار دے کر جشن کا اعلان کردیا۔ اس کی سپاہ نے برطانیہ پر ضرب یوں ہی تو نہیں لگائی۔ ان کے نزدیک جس روز کا وعدہ ہے ، جس روز پورے عالم پر اسلام کا پرچم لہرانے کی نوید ہے ، اس روز اس عظیم مملکت کا دارالخلافہ لندن ہی قرار پائے گا۔ یہ اسی کی تیاری ہے۔ اسی دن کے لئے لندن کی سڑکوں پر ابھی سے ’سرخ قالین‘ بچھایا جارہا ہے۔ اسی روز کے خیال سے فضا میں رنگا رنگ آہیں اڑائی جا رہی ہیں اور راہ داریوں میں آنسوؤں کا چھڑکاؤ کیا جارہا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم نے خبر دار کیا ہے کہ ابھی اور حملوں کا خطرہ ہے۔ سچ ہے، جذبوں کو مہمیز یوں ہی ملا کرتی ہے۔ اس تحریر کے شائع ہونے تک کچھ خبر نہیں کہ کون کہاں ہوگا۔
ہم جہاں ہیں، برطانیہ کے ایک گوشے میں خاموش بیٹھے ملک کے قانون کی پاسداری کررہے ہیں اور اس سرزمین کی ترقی اور تعمیر میں اپنا حصہ ڈال کر مطمئن ہیں کہ اب چین او رسکون سے جی لیں گے ۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ دل کو ایک دھڑکا سا لگا ہوا ہے کہ ہمارا کیا بنے گا۔ ہمیں ہمارا مذہب ورثے میں ملا ہے، اس کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں مگر ڈر رہے ہیں کہ ہمارے ارد گرد جو معاشرہ موجود ہے، کہیں ہمیں کن انکھیوں سے دیکھ تو نہیں رہا ہے۔ کہیں کسی کو یہ گمان تو نہیں کہ ہم کسی بے رحم ، سفّاک اور جلاد صفت نظرئیے کی گود میں پلے ہوئے ہیں۔ کبھی ایسا نہ ہو کہ راہ چلتے ہمیں طعنے سننے کو ملیں، کہیں راہ گیر ہم پر آوازے نہ کسیں، کہیں کوئی اٹھے اور ہم پر پتھر نہ دے مارے۔ مگر کیا قوم ہے اور کیا اس کی تہذیب۔اس کیلئے ہمارے دل میں ایسی قدر پہلے کبھی نہ تھی جیسی اب ہے۔ دہشت گردوں نے یہاں کیسے کیسے دھماکے اور قتل نہیں کئے، مگر کیا مجال ہے جو ہم گھر سے نکل رہے ہوں اور آس پاس سے کوئی آوازہ کسا گیا ہو، کوئی چھینٹا پڑا ہو، کوئی طنز سننے کو ملا ہو۔
اب تو ہم یہاں بس گئے ہیں او ربسے رہیں گے۔ ہمارے بچّے اور ان کے بچّے یہیں کے ہو رہے ہیں۔ ہمارے نواسوں اور نواسیوں اور پوتوں پوتیوں کے انگریزی نام رکھ لئے گئے ہیں۔میرے بیٹے کا نام بابر علی تھا۔ پتہ چلا کہ دنیا میں بابر نام کا ایک شخص ہے جس کا دہشت گردوں سے کچھ لینا دینا ہے۔ اس کی سزا میرے بیٹے کو یہ ملتی رہی کہ ہر ہوائی اڈے پرا س سے پوچھ گچھ ہوتی رہی۔ آخر اس نے قانونی کارروائی کرتے ہوئے اپنے نام سے لفظ ’بابر‘ نکلوا دیا۔ اس کے باوجو د اسے ہوائی اڈوں پر روکا گیا۔ ایک جگہ اس نے ذرا سا احتجاج کیا اور کہا کہ میں نے اپنے نام سے بابر کا لفظ نکلوا دیا ہے، پھر مجھے کیوں روکا جارہاہے۔ جواب ملا کہ دنیا میں کہیں کوئی دہشت گرد ہے جس کا نام عابدی ہے۔
تازہ خبر یہ ہے کہ شہر مانچسٹر میں تباہ کن دھماکہ جس ظالم نے کیا ہے اس کا نام بھی ’ عابدی‘ نہیں تو اس سے ملتا جلتا ضرور ہے۔
کوئی بتلا ئے کہ ہم بتلائیں کیا۔

.
تازہ ترین