• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اماں جب ہم کو قربِ قیامت کی نشانیاں بتاتی تھیں تو اس میں سورج کے سوا نیزے پر آنے سے پہلے ساری دنیا میں مسلمانوں کی حکومت ہوگی۔ بچپنے سے لے کر اس ادھیڑ عمری تک زندگی گزارتے ہوئے یہی سوچتی رہی کہ ابھی تو دنیا میں پچاس کے قریب مسلمان ممالک ہیں، قیامت ہمارے سامنے تو آنے سے رہی۔ ویسے بھی مکہ مدینہ پر کسی غیر کی حکومت تو کبھی ہو ہی نہیں سکتی کہ اس کا تو اللہ میاں نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ اگر کبھی ایسا اندیشہ ہوا تو ابابیل کافروں کے ہاتھیوں کو بھوسہ بنادیں گی۔ ایسا مسعود اشعر نے لکھا ہے۔
یہی سوچتے سوچتے اتوار کو پہلا منظر دیکھا کہ شہنشاہِ عرب کافر عورتوں سے نہ صرف ہاتھ ملارہے ہیں بلکہ ان کی سنہری زلفوں کو دیکھ کر مسکرارہے ہیں۔ جوش صاحب کا مصرعہ یاد آیا ’’خدا وہ دن نہ دکھائے۔‘‘ تین بجے دوپہر سے شام سات بجے تک ہر طرف سے فون ٹی وی لگائو، وہ بولنے والا ہے۔ میں نے غصے سے کہا کیوں بولنے والا ہے، وہ کون ہوتا ہے ؟؟ مسلمانوں کو اسلام کا درس دینے والا۔ شاہِ عرب کو جھکے ہوئے شانوں کے ساتھ ایک چھڑی پکڑے چلتے دیکھ کر میں تصور میں لانے لگی وہ بادشاہ جو چند ماہ ہوئے بالی کے جزیرے میں ایک ہفتہ کی جگہ دو ہفتے رہے تھے، سات ہوٹل بک کروائے گئے تھے اور تین بلٹ پروف گاڑیاں ان کے جہازوں میں ساتھ آئی تھیں۔ اب میرا دماغ اور پیچھے گیا، فرانس کے ایک جزیرے اور منسلک ہوٹلوں کو کارڈن آف کرکے صاحبِ دولت بادشاہ نے وہاں تفریح کا پروگرام بنایا تھا۔ وہ تو دیگر سیاحوں نے شور مچایا توانہوں نےتفریح کا پروگرام مختصر کرکے واپس وطن آنے کا سوچا تھا۔
پھر ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ’’کتاب مت پڑھو، ٹی وی دیکھو وہ جلد بولنے والا ہے۔ گھڑی دیکھی تو ابھی چار بجے تھے، سی این این اور بی بی سی کہہ رہے تھے فقط چند لمحے اور سامنے اسکرین پر دیکھا سب سربراہ آنے شروع ہوگئے تھے۔ اب نظریں اپنے وزیراعظم کو ڈھونڈنے لگیں، پھر کئی گھنٹے گزر گئے۔ خدا خدا کرکے سات بجے شاہِ معظم نےاس کا استقبال کیا اور درخواست کی کہ ہر چند انتالیس ممالک کی فوج یہاں ہے۔ پر میرے دنیا بھر کے بھورے بالوں والے ریچھ، میری بادشاہت کو بچالے کہ ایران کے ایٹم بم سے ڈر لگتا ہے، پاکستان کے ایٹم بم میں تو تم نے پہلے ہی بھوسہ بھردیا ہے۔ میں نے سر ہلا کر زور سے کہا ’’نہیں‘‘، میں نےاپنی ہی زوردار آواز سے گھبرا کر پھر ٹی وی کی جانب دیکھا اب ریچھ انگڑائی لے کر اٹھ کھڑا ہوگیا تھا۔ مسلمان سربراہوں کو چپ لگی ہوئی تھی، ایک دفعہ کیمرے میں صوفے پر دھنسے ہمارے رہنما کو بھی دکھایا۔ انہوں نے بھلا ترجمے کے لئے کانوں میں ٹوٹیاں کیوں دی ہوئی تھیں۔ ہمیں یہ خبر تھی کہ چار آمر سربراہوں کے علاوہ جمہوریت کی آنچ میں تپے ہوئے چہرے کی جانب کیمرہ گیا، نامراد لوٹا کہ بھورے ریچھ کے پاس اب وقت نہیں تھا۔ بادشاہ نما سربراہوں کے جلو میں دو خواتین اور نظر آئیں ایک تو بنگلہ دیش کی وزیراعظم اور دوسرے سر لپیٹے ایک اور خاتون۔
میں نے پیاس کے مارے حلق میں کانٹے پڑتے ہوئے دیکھا تو میرا پورا جسم غصے کے مارے پسینے میں شرابور تھا، پانی پینے کو اٹھی سر چکرا گیا۔ خود کو تسلی دی کہ اب کل اسرائیل کو یہ ریچھ ٹھوک بجاکے ٹھیک کردے گا۔ پھر صبح سے جوش صاحب کا مصرعہ بار بار زبان پر آرہا تھا ’’یہ دن نہ دکھانا یارب۔‘‘ اسی سوچ و بچار میں غلطاں مسلمان سربراہوں کو علامہ اقبال یاد کراتی ہوئی شکوہ، جواب شکوہ پڑھتی ہوئی ٹیلی فون پر روتی ہوئی طاہرہ عبداللہ کی آواز سنائی دی۔ ’’کشور آپا! اس نے تو فلسطینیوں کی پچاس سالہ جدوجہد پر پانی پھیردیا ہے، دیوار گریہ کہ جس کےلئے مسلمان ترستے ہیں، بیت المقدس جہاں نماز پڑھنے کے لئے فلسطینی ہزاروں لوگوں کو قربان کرچکے ہیں، یروشلم کہ جسے مسلمان اپنا قبلۂ اول کہتے ہیں، یہ ریچھ یہودی طریقے سے نماز پڑھ رہا ہے، دیوارِ گریہ کو چوم رہا ہے۔ اس کی آنکھوں میں تو مصنوعی آنسو بھی نہیں ہیں۔ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو کیا تحفہ دے رہا ہے۔ میں اس ذوقِ یقیں کو علامہ اقبال یاد کررہی ہوں کہ ہم غلاموں کی زنجیریں کٹ جائیں پر کیسے!
میں عاجز آکر ٹی وی دیکھنا شروع کردیتی ہوں۔ عذابِ الہٰی، ہر روز، پی آئی اے کے جہاز سے بیسیوں کلو ہیروئن برآمد ہورہی ہے، لفافوں سے کوکین برآمد ہورہی ہے۔ میں چیخ مار کر پھر رو پڑتی ہوں کہ اخباروں کے کالموں میں سے ایک دو کو چھوڑ کر یہی لکھا ہے کہ آخر نوازشریف کے بعد … اور کون۔
میں نفیسہ شاہ کی کتاب پڑھنے کے بعد کاری کی جانے والی عورتوں کے قبرستان پر نظم لکھ رہی تھی۔ مجھے لگا شاطر قوموں نے ساری مسلمان قوموں کو کاری کردیا ہے۔ بے قصور عوام جمہوریت کو بچانے کے لئے آنکھوں میں اترے ہوئے خون کو پی رہے ہیں سارے اسلامی ممالک کے سربراہوں کو کہہ رہے ہیں کہ عورتوں کو صرف شادیوں اور کنیزوں کی حیثیت سے مت دیکھو۔ مغل شہزادوں کی طرح پچاس برس سے اوپر تم لوگوں نے غریب مسلمانوں کے بچوں سے مزدوری بہت کرالی۔
میری مرحومہ ماں! بتائو کیا یہ قربِ قیامت کی نشانیاں ہیں۔

.
تازہ ترین