• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور‘‘ پروجیکٹ کے تحت بلوچستان کی گوادر بندرگاہ 40 سالہ پٹے پر چین کو دی گئی ہے‘‘ یہ اعلان بحری بندرگاہ اور جہاز رانی کے وفاقی وزیر حاصل بزنجو نے گزشتہ ہفتے حیدرآباد پریس کلب میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں کیا۔ دراصل یہ سوال میں نے بزنجو صاحب سے کیاتھا‘ میں کیونکہ ان دنوں حیدرآباد میں ہوں اور مجھے خاص طو رپر اس پریس کانفرنس اور بعد میں حیدرآباد جم خانہ میں دئیے گئے لنچ میں شرکت کی خصوصی دعوت دی گئی تھی لہٰذا میں نے اس پریس کانفرنس میں شرکت کی۔ میرا بزنجو صاحب سے سوال کرنے کا ارادہ نہیں تھا کیونکہ میں اب رپورٹر نہیں رہا‘ میں اب کالم نویس ہوں‘ مگر چونکہ 30 سالوں سے زائد عرصے سے میں رپورٹنگ کرتا رہا ہوں لہٰذا میرے اندر ہر وقت رپورٹر بیٹھا رہتا ہے جس نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس ایشو پر میر صاحب سے سوال کروں‘ یہ سوال کرنے کی ایک اور وجہ بھی تھی‘ میں سی پیک پر اب تک کم سے کم ایک کالم لکھ چکا ہوں‘ اس کے بعد اس ایشو پر دو اہم سرکاری دستاویزات میرے ہاتھ لگیں اور کچھ مزید دستاویزات یا اس سلسلے میں کچھ باخبر حلقوں سے مزید حقائق معلوم کرنے کا انتظار کررہا تھا تاکہ میں اس ایشو پر ایک اور کالم لکھوں۔ دراصل میر صاحب سے میرا سوال تھا کہ ’’یہ جو اطلاعات آرہی ہیں کہ گوادر بندرگاہ 90 سالہ پٹے پر چین کے حوالے کیا جارہا ہے تو یہ اطلاعات کہاں تک درست ہیں ؟ جواب میں میر صاحب نے انتہائی اعتماد سے جواب دیا کہ 90 سال کے لئے نہیں البتہ 40 سال کے لئے گوادر بندرگاہ چین کو پٹے پر دی گئی ہے۔ انہوں نے اپنے اس جواب میں مزید دلچسپ انکشاف کیا کہ ان چالیس سالوں میں گوادر بندرگاہ پر سارا خرچ چین کر ے گا مگر میر صاحب بھی اس سلسلے میں مزید تفصیلات بتانے سے قاصر محسوس ہوئے۔ بزنجو صاحب کے اس جواب کے ردعمل میں ذہن میں کئی سوالات اٹھنے لگے‘ مثال کے طور پر کیا اس سلسلے میں حکومت پاکستان کا چین کی حکومت سے کوئی باقاعدہ ایگریمنٹ ہوا ہے؟ اگر ہوا ہے تو حکومت اس اہم ’’پیشرفت‘‘ کو عوام سے کیوں چھپائے بیٹھی ہے؟ مگر میں نے فی الحال یہ سوال کرنے کی بجائے میر صاحب سے یہ سوال کیا کہ کیا یہ مناسب نہیں کہ آئین میں ترمیم کرکے صوبوں کی سمندری بندرگاہ متعلقہ صوبوں کی تحویل میں دی جائیں‘ اس کے بعد اگر بلوچستان کی حکومت چین سے ایسا معاہدہ کرنا چاہے تو سرعام کرے؟ میر صاحب نے اس سوال کا جواب دینے سے گریزکیا مگر سندھ اور بلوچستان کے کئی حلقے یہ رائےرکھتے ہیں کہ جب سندھ اور بلوچستان پاکستان میں شامل ہوئے تو ان کی بندرگاہ ان صوبوں کی ملکیت تھیں‘ تو پھر صوبوں کو ان کی بندرگاہوں سے محروم کرکے یہ بندرگاہ مرکز نے اپنے پاس کیسے رکھ لیں‘ یہ سب پاکستان کے وجود میں آنے کے ساتھ کیا گیا‘ اس وقت تو ابھی آئین بھی نہیں تھااورپاکستان اور ہندوستان کو انڈیا ایکٹ کے تحت حکومت کرنے کے اختیارات دیئے گئے تھے‘ اس ایکٹ میں تو ایسی کوئی بات نہیں تھی‘ لہٰذا اس سلسلے میں یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ بندرگاہ کو صوبوں کی تحویل سے نکال کر مرکز کے حوالے کرنے کا فیصلہ بھی بعد میں مغربی پاکستان میں صوبوں کے وجود کو ختم کرکے ون یونٹ قائم کرنا یا مارشل لائوں کے متواتر نفاذ جیسے فیصلوں کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعد میں 1973 ء میں آئین بنا تو اس فیصلے کو آئینی شکل دی گئی‘ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بھٹو کے دور میں جو آئین بنا وہ بناتے وقت انہیں ’’طاقتور حلقوں‘‘ کے دبائو کے تحت کئی ایشوز پر کمپرومائز کرنا پڑا‘ حالانکہ 1973 ء کا آئین بناتے وقت اگر صوبوں کے مرکز کی تحویل میں رہنے کی مہر تصدیق ثبت کی جارہی تھی تو کم سے کم سندھ اور بلوچستان کے عوام سے پوچھنا چاہئے تھا‘ اگر یہ ضروری تھا تو کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ اس ایشو پر دونوں صوبوں میں عوامی ریفرنڈم کرایا جاتا۔ بہرحال کوئی غلط فیصلہ کسی وقت بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے مگر افسوس ہے کہ آج تک دونوں صوبوں کی نہ حکومتوں نے اور نہ سیاسی قیادت نے ایسا مطالبہ کیا ہے‘ بہرحال اس ایشو پر میر حاصل بزنجو کے جواب کی روشنی میں ذہنوں میں کئی سوال اٹھ رہے ہیں اور اٹھیں گے۔ پہلی بات یہ ہے کہ پی ایم ایل (ن) کی حکومت نے یہ فیصلہ اور اگر کوئی ایگریمنٹ کیا ہے تو اس ایگریمنٹ کے سارے مندرجات شائع کیوں نہیں کرتی اور عوام سے یہ بات کیوں چھپائی جارہی ہے۔ اس مرحلے پر ذہن میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر جیسے میر بزنجو نے فرمایا کہ اس مفاہمت کے تحت گوادر کی ترقی پر ان 40 سالوں میں سارا خرچ چین کریگا‘ تو یہ بھی ایک عجیب منطق ہے اور اس سلسلے میں بھی کئی وضاحتیں مطلوب ہیں۔ کیا یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ ان 40 سالوں میں چین گوادر بندرگاہ کی ترقی پر ٹوٹل کتنی رقم خرچ کرے گا‘ کیا یہ طے کیا گیا ہے کہ اتنے عرصے تک گوادر پر اتنی رقم خرچ کرنے پر کوئی سود بھی لیا جائے گا‘ اگر لیا جائے گا تو اس کی کیا شرح ہوگی؟ پاکستان 40 سال تک چین کی طرف سے گوادر پر خرچ کی جانے والی رقم کیسے واپس کرے گا‘ کیا اس کی ’’ادائیگی‘‘ کا کوئی شیڈول بھی تیار کیا گیا ہے؟ اس عرصے کے دوران چین کی طرف سے یک طرفہ طور پر خرچ کی گئی رقم پاکستان واپس کرنے کا اہل بھی ہوگا‘ 40 سال کے بعد پاکستان کی اقتصادی صورتحال کیا ہوگی۔ اللہ کرے اچھی ہو اور چین کو یہ رقم واپس کرکے گوادر پر اختیار کلی طور پر بلوچستان /حکومت پاکستان کا بحال ہوجائے مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اطلاعات کے مطابق حکومت بڑے پیمانے پر پاکستان کی املاک ملکی اور غیر ملکی اداروں کے پاس گروی رکھ رہی ہے یا اپنے اہم ادارے مثلاً اسٹیل مل‘ پی آئی اے وغیرہ پرائیوٹائز کررہی ہے۔ براہ مہربانی حکومت پاکستان فوری طور پر اس سلسلے میں وضاحت کرکے حقائق سامنے لائے‘ یہ اس ملک کے عوام کے بھی مفاد میں ہوگا تو خود موجودہ حکومت کے بھی مفاد میںہوگا۔ اس صورتحال پر میری ایک اہم سینیٹر سے بات ہوئی ہے ان کی تجویز یہ تھی کہ اگر واقعی گوادر بندرگاہ 40 سال کے پٹے پر چین کے حوالے کی جارہی ہے تو اس سلسلے میں چین کی حکومت‘ حکومت پاکستان اور بلوچستان کی حکومت کے درمیان سہ طرفہ معاہدہ ہونا چاہئے۔

.
تازہ ترین