• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز میںوفاقی بجٹ 2017کے آنے سے پہلے ہی مہنگائی کا گراف کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے عوام کے ساتھ مرکز اور صوبوں میں سرکاری بجٹ کی آمد کی صورت میں سنگین مذاق کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان بجٹوں سے غریب اور متوسط طبقے کو کوئی فائدہ نہیں ملتا۔ بلکہ ان کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ طرفہ تماشایہ ہے کہ وفاق اور صوبوں میں توبجٹ سال میں ایک مرتبہ آتا ہے مگر بجلی، گیس، پٹرول اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کے ’’منی بجٹ‘‘ سارا سال ہی آتے رہتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکمرانوں کو عوامی مشکلات کو ختم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اب رمضان المبارک اور وفاقی بجٹ کی بھی آمد آمد ہے۔ ایک بار پھر وفاقی حکومت کی جانب سے عوام کو بجٹ میں ریلیف دینے کے سہانے خواب دکھائے جارہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بجٹ بناتے وقت عوامی فلاح وبہبود کا خیال رکھا جاتا مگر پاکستان میں معاملہ اس سے برعکس ہے۔ یہاں ہمیشہ وفاق اور صوبوں کے بجٹوں میں امرا طبقے کو نوازاجاتا ہے ۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ ٹیکس وصولی کے نئے اہداف میں کئی گنا اضافہ کے باعث پنجاب میں آئندہ ٹیکس فری بجٹ کا خواب حقیقت بنتانظر نہیں آرہا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب کے 12کروڑ عوام کوبجٹ میں اب مزید 100ارب روپے کے نئے ٹیکس برداشت کرنا پڑیں گے۔ ٹیکس کا حصول جس مرضی سیکٹر سے کیا جائے اس سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا جو کہ کسی بھی صورت میں عوام کوقابل قبول نہیں ہوگا۔ عوام پہلے ہی کسمپرسی کا شکار ہیں اور ان کی زندگی دن بدن بدتر ہوتی جارہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت آئندہ بجٹ میں عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف فراہم کرے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پنجاب بورڈ آف ریونیو نے زراعت کے شعبے پر گزشتہ دس برسوں سے ٹیکس لگا رکھا ہے لیکن اس سیکٹر میں ریکوری نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکمران اپنے غیر ملکی دوروں پر شاہانہ اخراجات کرنے کی بجائے عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کریں۔ ترقیاتی کاموں کے لئے مختص بجٹ کا پوری طرح صرف نہ ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار میں وہ اہلیت ہی نہیں جس سے عوام کو آسودگی حاصل ہوسکے۔ بجٹ اور رمضان سے قبل ہی ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوزوں نے بھی عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کی منصوبہ بندی کرلی ہے۔
ملک میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ نیب کی جانب سے بھی تین ارب روپے کی کرپشن کے ملزمان کو ناقص تحقیقات کے نتیجے میں عدالتوں سے بری کروانے کی اطلاعات انتہائی تشویش ناک اور لمحہ فکریہ ہیں۔ کرپشن نے ملکی اداروں کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا ہے۔ سابقہ اور موجودہ دور حکومت میں منافع بخش اداروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا رہا ہے۔ ایف آئی اے، نیب اور دیگر احتساب کے اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔ پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں تین ارب روپے کی جائیدادیں خریدی گئیں جن کی مارکیٹ سے دس گنا زیادہ قیمت ادا کی گئی۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا مگر ملی بھگت کے باعث مجرمان کو آزاد کروانا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کے برابر ہے اور کرپٹ اور بدعنوان بااثر افراد پیسے کے بل بوتے پر عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہیں۔ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کے اس پریشان کن دور میں پاکستان میں دکھی انسانیت کی خدمت کا فریضہ الخدمت فائونڈیشن جماعت اسلامی، ایدھی فائونڈیشن، شوکت خانم کینسراسپتال اور دیگر غیر سرکاری سطح پر چلنے والے ادارے ادا کر رہے ہیں۔ یہ بہت بڑی نیکی ہے، حکومت کو بھی ایسے اداروں کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے بلکہ ان اداروں کے ساتھ مشترکہ منصوبے بھی شروع کرنے چاہئیں تاکہ غریب اور نادار طبقے کی مشکلات کا ازالہ ہوسکے۔ اسی تناظر میں ہمارے ایک کرم فرما علامہ عبدالستار عاصم نے ہمیں چشم کشا اور فکر انگیز خط بھجوایا ہے جو کہ نذر قارئین ہے!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ! گزارش ہے کہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں جو میرے لاکھوں عقیدت مند آپ کا کالم شوق سے پڑھتے ہیں اور آپ کا کالم اعلیٰ حلقوں میں بھی discuss ہوتا ہے اور بے پناہ پذیرائی ملتی ہے۔ آپ نے ہمیشہ اپنے کالم کو عالم اسلام، پاکستان اور مظلوم عوام کا ترجمان اور آئینہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ آپ کی کتاب گردش ایام معلومات کا خوبصورت پاکستانی انسائیکلو پیڈیا ہے جس کی روشنی سے طلبا طالبات استفادہ کرتے رہیں گے۔ علاوہ ازیں رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ اس موقع پر عالم اسلام میں مخیر حضرات کھربوں روپے کے زکوٰۃ و عطیات مستحق بہن بھائیوں کو عطا کرتے ہیں جس سے اسلام کا معاشی نظام خوب پھیلتا ہے اور زکوۃ کا جامع نظام ہی سود کا متبادل نظام ہے۔ سود کا خاتمہ ہر مسلمان کا خواب ہے۔ اگر ہر صاحب حیثیت بروقت اور پوری زکوٰۃ ادا کر دے تو کسی بھی ٹیکس کی ضرورت نہیں رہے گی۔ قرآن پاک میں زکوٰۃ کے جتنے مصارف ہیں ان میں سے ایک قیدی بھی شامل ہے۔ قرآن پاک میں واضح احکامات ہیں کہ قیدیوں کی گردن چھڑوائو۔ ہماری قلم فائونڈیشن ہر سال سو کے قریب جیل خانہ جات میں بند ہزاروں قیدی جو چند ہزار روپیہ نہ دینے کی وجہ سے عرصہ دراز سے پابند سلاسل ہیں ان کو رہا کروانے کی کوشش کرتی ہے اور الحمدللہ ہر سال ہزاروں قیدی رہا بھی ہو جاتے ہیں۔ اس موقع پر میں پاکستان کے تمام مخیر خواتین و حضرات سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے اضلاع کی جیلوں کا وزٹ کریں اور رمضان المبارک میں لاوارث، غریب، قیدی بچوں، خواتین اور بے سہارا قیدیوں کو جرمانے، دیت، قصاص دے کر رہا کروائیں جو اپنی سزا تو پوری کر چکے ہیں مگر جرمانہ نہ ادا کرنے کی وجہ سے قید ہیں۔ پاکستان کی آبادی تقریباً تیس کروڑ سے بھی زیادہ ہو چکی ہے جبکہ صرف لاہور کی آبادی دو کروڑ سے زیادہ ہے۔ لاہور میں ہر روز دو سو سے زائد لوگوں کے گردے فیل ہو رہے ہیں۔ کینسر، ہیپاٹائٹس سی، آنکھوں کے امراض، جلد کے امراض خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ میری ایک تجویز ہے کہ awarenessکے حوالے سے ایک جدید ترین سو ایکڑ پراسپتال بنایا جائے جس میں ایک جدید یونیورسٹی، لائبریری اور ریسرچ سینٹر اور کھیلوں کے میدان بھی بنائے جائیں۔ جہاں قومی سطح پر بارہ مہینے compaignچلنی چاہئے کہ کینسر کیسے پھیلتا ہے اور اس کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔ گردے کیسے فیل ہوتے ہیں اور ان کو کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ ہیپاٹائٹس سی کیسے پھیلتا ہے اور کیسے روکا جاسکتا ہےاور دیگر امراض کیسے پھیلتے ہیں اور کیسے ان کو روکا جا سکتا ہے۔ ہر سال کھربوں روپے میڈیسن پر خرچ ہو جاتے ہیں اور عوام کو awarenessنہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس اسپتال کی فنڈنگ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اوورسیز پاکستانی بھی کریں گے۔ ابتدائی طور پر اس کی فزیبیلٹی اور ایک مخلص ٹیم تشکیل دی جائے۔ یہ ایک بہت بڑی قومی خدمت ہوگی اور ہم آپ کی زیر سرپرستی یہ قومی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے جانی مالی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔

.
تازہ ترین