• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ سطور جس وقت قارئین کے سامنے ہونگی، اس وقت تک 4800 ارب روپے سے زائد حجم کے نئے وفاقی بجٹ کی تفصیلات سامنے آ چکی ہوں گی۔ وزیراعظم نواز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بعض بیانات کے حوالے سے قومی میزانیہ برائے2017-18ءسے تمام ہی حلقوں بالخصوص غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں نے خاصی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ روایات کے مطابق بجٹ کے اعلان سے ایک روز قبل ہی جمعرات کے روز مالی سال2016-17ءکی اقتصادی سروے رپورٹ جاری کردی گئی جس سے گزرے سال کے دوران معاشی اہداف کے حصول، حکمت عملی کے نتائج اور اکنامک منیجرز کی کارکردگی کی وہ تصویر بڑی حد تک سامنے آجاتی ہے جو نئے بجٹ کی تیاری اور اس پر موثر عملدرآمد میں معاون بنتی ہے۔ وزیر خزانہ نے اپنی پریس کانفرنس میں اقتصادی رپورٹ جاری کرتے ہوئے اس کے اہم نکات کی جو تشریح کی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں ترقی کا دس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے، مجموعی معاشی شرح نمو 10 برس میں پہلی مرتبہ 5.3فیصد کی شرح پر ہے جبکہ اگلے سال کیلئے شرح نمو 6 فیصد مقرر کی گئی ہے۔ پاکستانی معیشت اس وقت ساڑھے تین سو کھرب روپے تک پہنچی نظر آ رہی ہے جبکہ اقتصادی ترقی کے حصول کے لئے حکومت نے جو متعدد اقدامات کئے ان میں اچھے نتائج حاصل ہوچکے ہیں یا بہتری کے امکانات روشن ہیں۔ بعض منصوبوں کی تکمیل حیرت انگیز طور پر انتہائی کم مدت میں ہوئی ہے جس کا اندازہ ساہیوال میں صرف 22 ماہ میں مکمل کئے جانے والے 1320 میگاواٹ کے کول پاور پروجیکٹ کے پہلے پلانٹ سے 660 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے آغاز سے لگایا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے الفاظ میں دنیا کی تاریخ میں اس رفتار سے آج تک اتنی پیداواری گنجائش کا کوئی منصوبہ مکمل نہیں کیا گیا۔ اقتصادی سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہنگائی کی شرح قابو میں رہی اور خدمات و زراعت کے شعبے بہتر ہوئے جبکہ تارکین وطن سے زرمبادلہ کی آمد میں کمی ہوئی، صنعتی شعبہ زوال پذیر رہا، فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا۔ مگر ٹیکس دہندگان کی تعداد میں کمی آئی۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ کچلے ہوئے طبقات اپنے ناگفتہ بہ حالات کے باعث اس نوع کی سرکاری رپورٹوں کے نتائج سے اتفاق نہیں کرتے۔ زرعی اور سروسز کے شعبے میں ترقی کی شرح تین برس میں خاطر خواہ بڑھی ہے اور اس کا عمومی طور پر اعتراف بھی کیا جاتا ہے۔ بجلی اور گیس کی ترسیل میں 3.4 فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ مگر جاری خسارے کی صورت حال قابو سے باہر رہی جو سوا سات ارب ڈالر ہوگیا۔ چار برسوں کے قرضوں میں بھی 46 فیصد اضافہ ہوا جبکہ پاکستان پر اس وقت مجموعی قرضہ 20872 ارب روپے ہے۔ اس صورت حال کو درست کرنے کے لئے ہمیں اخراجات پر کنٹرول کرنے اور نئے قرضوں سے بچنے کے لئے مزید تدابیر کرنا ہوں گی۔ کسان پیکیج سمیت کئی ترقیاتی پالیسیوں کے لئے مالیاتی رعایتیں دینا اور وسائل مہیا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ ایسی سرمایہ کاری ہے جس سے کچھ عرصے بعد کئی گنا فوائد کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے بچتے ہوئے ہم اس بات کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتےہیں کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں پر جتنی سرمایہ کاری حقیقتاً کی جانی چاہئے اس سے بہت کم کی جا رہی ہے مگر اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ پچھلے برسوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کھربوں روپے سالانہ کے اخراجات کا جو بوجھ رہا، اس کے باوجود ہر شعبے میں کچھ نہ کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ مجموعی طور پر اقتصادی جائزہ پاکستانی معیشت کی ایک امیدافزا تصویر پیش کر رہا ہے اور اس میں جن کمزور پہلوئوں کی نشاندہی کی گئی ہے، نئے بجٹ میں ان میں بہتری لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے سے گریز کا عندیہ دیا ہے تاہم کیا ہی اچھا ہو کہ بالواسطہ ٹیکسوں کو رفتہ رفتہ گھٹا کر براہ راست ٹیکسوں کی حکمت عملی بروئے کار لائی جائے۔ جب تک بڑی آمدنیوں کے حامل افراد سے بلاامتیاز براہ راست ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا، قرضوں سے چھٹکارا پانے اور غربت میں کمی کا خواب تشنہ تعبیر ہی رہے گا۔

.
تازہ ترین