• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کے مودی حکومت کے قابو سے باہر ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف بھارت کے جارحانہ رویے میں شدت بھی مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔منگل کے روز یہ خبر منظر عام پر آئی کہ بھارتی فضائیہ کے سربراہ بی ایس دھنووا کی جانب سے ائیرفورس کے بارہ ہزار افسروں کو بھیجے گئے خط میںہدایت کی گئی ہے کہ وہ مختصر نوٹس پر کارروائی کیلئے تیار رہیں۔بھارتی ایئرچیف کے اس طرزعمل کے پیش نظر بدھ کو پاک فضائیہ کی تمام فارورڈآپریٹنگ مراکز کو آپریشنل کردیا گیا ۔ پاک فضائیہ کے طیاروں نے سیاچن کے محاذ پر جنگی مشقیں کیں اور پاک فضائیہ اور بحریہ کے سربراہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم دشمن پر کاری ضرب لگانے کیلئے تیار ہیں جبکہ گزشتہ روز کی اطلاعات کے مطابق پاکستان اور بھارت نے کنٹرول لائن پر اپنی آپریشنل تیاریاں مکمل کرلی ہیں اور کشیدہ صورت حال کے پیش نظر بھارت نے اپنی مغربی ایئرکمان کو ہائی الرٹ کردیا ہے ۔بھارتی میڈیا کی تازہ ترین رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ پہاڑوں پر برف پگھلنے کے ساتھ ساتھ کنٹرول لائن پر کشیدگی میں اضافہ ہوگا جس کے باعث 2004ء میں ہونے والا جنگ بندی معاہدہ ختم ہوجانے کا امکان ہے۔ بھارت کی اندھی جارحیت اور بے لگام اشتعال انگیزی کا عالم یہ ہے کہ بدھ کے روز بھارتی فوج نے کنٹرول لائن پر قوام متحدہ کے مبصرین کی گاڑی پر بھی فائرنگ کردی ۔اس صورت حال میں بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مرکنڈے کٹجو کا یہ انتباہ حقائق سے پوری طرح ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا خدشہ جلد ہی حقیقت بن سکتا ہے۔سابق جج نے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں کشمیری حریت پسند وقت اور جگہ کا خود تعین کرکے بھارتی فوجیوں پر چھاپہ مار حملوں کا سلسلہ تیز کریں گے جن میں ہر بار بھارتی فوجیوں کا جانی نقصان ہوگا اور بھارتی فوج کیلئے ان کے خلاف کارروائی ممکن نہیں ہوگی کیونکہ کشمیر کی تقریباً پوری آبادی بھارت کے خلاف اور حریت پسندوں کے ساتھ ہے اور انہیں عام لوگوں کی جانب سے معلومات، خوراک اور محفوظ ٹھکانے فراہم کیے جاتے ہیں۔اس لیے بھارتی فوجی غصے میں عام شہریوں کو ماریں گے جس کے نتیجے میں ویت نام کے مائی لال قتل عام جیسے واقعات پیش آئیں گے اور دونوں جانب سے بڑی تعداد میں لوگ مارے جائیں گے، یہی موقع ہوگا جب بھارتی فوج دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کے نام پرآزاد کشمیر میں داخل ہوجائے گی اور ایک محدود روایتی جنگ شروع ہوجائے گی جس کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جنگ بندی کی کوششیں کرے گی لیکن اس دوران دونوں طرف کے ہزاروں لوگ مارے جاچکے ہوں گے اور خطے پر اس جنگ کے شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔مقبوضہ کشمیر کی یہ صورت حال اور اس کے باعث جنوبی ایشیا پر جنگ کے منڈلاتے سائے بلاشبہ عالمی برادری کی فوری توجہ کے متقاضی ہیں کیونکہ علاقے کی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک بار مکمل جنگ شروع ہوگئی تو یہ محض یہ خوش فہمی ہوگی کہ وہ روایتی ہتھیاروں کے استعمال تک محدود رہے گی۔ جنگ شروع ہوئی تو حالات کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے ، بھارتی حکمرانوں کو سمجھنا چاہیے کہ جنگ پاکستان ہی نہیں بھارت کیلئے بھی انتہائی تباہ کن ثابت ہوگی جبکہ بھارت کیلئے کشمیر پر طاقت کے بل پر قبضہ برقرار رکھنا ناممکن ہے ، جسٹس مرکنڈے کا تجزیہ بھی یہی بتاتا ہے اور ممتاز بھارتی صحافی اور مصنف پریم شنکر جھا کا کہنا ہے کہ بھارت سات کیا ستر لاکھ فوج بھی کشمیر میں لگادے تو تحریک آزادی کو دبا نہیںسکتاجبکہ پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں عالمی امن بھی تہ و بالا ہوجائیگا لہٰذا عالمی برادری کو فوری طور پر جنوبی ایشیاکو جنگ کے خطرے سے بچانے کیلئے نتیجہ خیز اقدامات عمل میں لانے چاہئیں جس میں بنیادی اہمیت تنازع کشمیر کے منصفانہ حل کی ہے اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے ۔یہ اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک خصوصاً بڑی طاقتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کرائیں اور دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔

.
تازہ ترین