• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’دی نیوز‘‘ کے لاہور ایڈیشن میں ایک چھ کالمی رنگین تصویر تھی جو میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔ یہ تصویر مجھے صدیوں پر محیط تاریخ کی راہداریوں میں گھسیٹ رہی ہے۔ سلاطین دہلی سے لے کر مغلوں تک، مغلوں سے لے کر گوروں تک اور گوروں سے لے کر اس زندہ درگور کر دینے والی جمہوریت یعنی 2017 تک یہ تصویر بتاتی ہے کہ صدیوں کے سفر میں حقیقی تبدیلی کبھی نہیں آئی۔یہ تصویر ہے شہنشاہ جہانگیر کی چہیتی ملکہ نورجہاں کے مقبرے کی جسے Renovate کیا جارہا ہے جویقیناً بہت اچھی بات ہے لیکن مقبرے سے زیادہ میرا فوکس وہ مزدور ہوگئے جو مئی کی دھوپ میں بانس کی سیڑھیاں لگائے’’گوہ‘‘ پرچڑھے مزدوری میں مصروف ہیں۔ یہ کسمپرسی کے اشتہار نہیں زندہ شہکار ہیں۔ بغیر کسی حفاظتی بندوبست یا تدبیر کے سیڑھیوں اور پھٹوں پر اوزاروں سمیت چڑھے یہ دیہاڑی دار دیکھ کرمیں نےسوچا یہ تو صدیوں پہلے بھی ایسے ہی ہوںگے۔بالکل ایسے ہی ہوںگے بغیر کسی تحفظ کے ہر روز ایک نیا کنواں کھودنےوالے، ایک وقت کی کھا کر دوسرے وقت کی روکھی سوکھی کا سوچنے والے کہ ہمارے تو محاور ے بھی اس کی گواہی دیتے ہیں مثلاً.....’’روکھی سوکھی کھا اور ٹھنڈا پانی پی‘‘’’دو وقت کی مل جائے تو شکر ادا کر‘‘’’چپڑی ہوئی اوردو دو‘‘’’پیٹ میں گیا چارہ کودنے لگا بیچارہ‘‘’’جس کے گھر دانے اس کےکملے بھی سیانے‘‘’’منہ کھائے تو آنکھ شرمائے‘‘’’جو اَن دے وہی اَن داتا‘‘’’ہاتھ میں لیا کانسہ تو روٹی کا کیا سانسہ‘‘’’گھر میں اناج کوتوالی راج‘‘’’بھوک نیامت (نعمت) قرض قیامت‘‘’’آٹا بیچ کے گاجر کھانا‘‘’’بی بی نیک بخت۔ دال دو وقت‘‘’’راج کال ہی اناج کال ہے‘‘’’اَن اور رَن کا کیا نام رکھنا‘‘’’نیت کھوٹی رزق نہ روٹی‘‘’’ڈھڈ نہ پیاں روٹیاں تے سبھے گلاں کھوٹیاں‘‘’’سستا گیہوں گھر گھر پوجا‘‘’’اوچھے کےگھر کھانا، جنم جنم کا طعنہ‘‘’’پوری سے پوری پڑے تو سب نہ پوری کھائیں‘‘’’بہرا بھی روٹی کی پٹ پٹ سنتا ہے‘‘’’جس کے ہاتھ ڈوئی اس کا ہر کوئی‘‘’’تر ہوئی آنت بجنے لگی تانت‘‘’’بھوک میں بھجن نہ گایا جائے‘‘’’ہاتھ میں لانا پات میں کھانا‘‘بیس پچیس تو لکھتے لکھتے مجھے یاد آگئے ورنہ اردو، پنجابی، ہندی، سنکسرت کے سینکڑوں محاورے ’’بھوک‘‘ کے موضوع پر اور ’’روٹی‘‘ کے گرد محو رقص ہیں اور یہ سلسلہ نان اسٹاپ جاری ہے تو کیا اس خطے کو کسی نے بددعا دے رکھی ہے کہ انسان بنیادی ترین ضروریات سے ہی نجات نہیںپارہا۔اقبال نے کہا تھا ’’ہیں تلخ بہت بندہ ٔ مزدور کے اوقات‘‘ یا ’’اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو‘‘ حبیب جالب روتا مر گیا کہ ’’پائوں ننگےہیں بینظیروں کے اور ہر بلاول مقروض ہے‘‘ ۔ ’’آزادی‘‘ ملنے کے 70 سال بعد بھی ’’رعایا‘‘ ..... روٹی سے رہائی نہ پاسکی تو کیا یہ د رست نہیں کہ کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی۔محمود غزنوی کے 17حملوں سے میاں برادران کے وفاق پر تیسرے کامیاب حملے کے بعد بھی عام آدمی کے حالات نہیں بدلے۔ کب سے ’’فلاحی مملکت‘‘ کےٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ روٹی سے قیمے والے یا روغنی نانوں کےگرد رقص کرنے والوں سے امید کہ کوئی ’’سٹیفن ہاکنگ‘‘ پیدا ہوگا؟ یہاں توپیداگیر ہی پیدا ہوں گے جو جتنی چوریاں کریں گے، ایگزٹ کے لئے اتنی ہی موریاں بھی رکھیںگے۔مزدوری تو مہذب دنیامیں بھی ہوتی ہے لیکن انہیں طرح طرح کا تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ ان کی اجرتیں قابل رشک ہوتی ہیں لیکن یہاں شاید تبدیلی نے نہ آنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔یہ مقبرے اور مزار جب بنے ہوںگے تب بھی خستگی، بدحالی کے مارے یہ Underpaid مستری مزدور اس ’’ٹیکنالوجی‘‘کی مدد سے یہ ’’اہرام‘‘ تعمیر کرتے ہوں گے جس کی مدد سے آج انہیں renovate کر رہے ہیں۔تاج محل تب بھی بنتے تھے، آج بھی بنتے ہیں اور انہیں ’’موٹروے‘‘ اور ’’میٹرو‘‘ کہا جاتا ہے لیکن مزدور کو روٹی سے رہائی نہ تب نصیب تھی نہ آج ہے۔ میں نےتاج محل کے مزدوروں اور ہنرمندوں کو آگرہ میں دیکھا ہے۔ وہ آج بھی وہی کام کررہے ہیں جو ان کے بزرگ کیا کرتے تھے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج یہ لوگ سنگ مرمر کے ٹیبل ٹاپس پر وہ نقش و نگار بناتے ہیں جو ان کے بزرگ تاج محل پر بنا گئے۔ وہ بھی Underpaid اورہیڈ تومائوتھ تھے۔ ان کے حالات بھی ویسےہی ہیں یعنی ایک وقت کی کھا کر، دوسرے وقت کی فکر۔مہذب دنیا نے وسائل کی تقسیم کے معیار اور میزان تبدیل کردیئے۔ چینی اس کے لئے سرتوڑ جدوجہد میں مصروف ہیں جبکہ یہاں سب کچھ منجمد اور ٹھٹھرا ہوا ہے سوائے میاں صاحبان کے ۔روٹی سے رہائی پائیں تو مین اسٹریم میں آئیں اور صحیح معنوں میں کچھ کنٹری بیوٹ کریں۔ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمٰن کی منتقم مزاج بٹیا، ہندوستان میں مجنون مودی سرکار اور ہمارے پاکستان میں تیسری بارمیاں صاحب جن کی وجوہاتِ شہرت میں پاناما سرفہرست ہے یا حدیبیہ یا منی لانڈرنگ کے حوالہ سے اعتراف ڈاریہ ۔وژنری لیڈرشپ کب تک روٹھی رہے گی؟عوام کو روٹی سے رہائی کب ملے گی؟جمہور کو جینوئن جمہوریت کبھی نصیب بھی ہوگی یا نہیں؟اپنا دکھ اور المیہ توسرفہرست..... مجھے تو باقیوں کا بھی د کھ ہے جو ’’سونے کی چڑیا‘‘ رہا کرانے اور ’’آزادیاں‘‘ پانے کےبعد بھی اپنوں کو روٹی کی نسل در نسل قید سے رہائی نہ دلا سکے۔بھوک، ننگ، غربت، جہالت، تعصب، نفرت، انتقام کے زندانوں میں بند یہ ’’آزاد‘‘ لوگ؟

.
تازہ ترین