• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوشل میڈیا پر دو واضح مظاہر ہمارے سامنے نمایاں ہیں۔ ایک تو ہمارے درمیان کچھ گروپس کی موجودگی،جن کے ارکان جعلی ناموں سے شر انگیز معلومات پھیلاتے رہتے ہیں۔ ان کی فعالیت مربوط اور جچی تلی ہوتی ہے ۔ اور دوسرا یہ کہ بطور معاشرہ ہم دوسروں سے منفی محرکات کے بغیر ، محض فکری اور مثبت اختلاف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ ہم نے اب تک یہ نہیں سیکھا کہ حریف کی کردار کشی کیے بغیر اُس کے موقف ، یا اُس کی دی گئی دلیل کی کس طرح مخالفت کرنی ہے ۔
کیا یہ مظاہر غیر صحت مندانہ اور ناروا ہیں؟ جی ہاں ، ایسا ہی ہے ۔ کیا پروپیگنڈا کا شکار ہونیوالے صارفین کو ان کے ذریعے اذیت پہنچتی ہے ؟ یقیناً کیا مذموم مقاصد کے لئے پھیلائی گئی غلط معلومات نشانہ بننے والے کی ساکھ مجروح کرسکتی ہیں؟جی ہاں، ایسا ہی ہے ۔ لیکن کیا سوشل میڈیا کے ذریعے لگائے گئے غلط الزامات ہماری اقدار یا ریاستی اداروں کی ساکھ کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ کیا سوشل میڈیا کے خوفناک رویے کو جواز بنا کر ایف آئی اے کے ذریعے دھونس اور دھمکی کی فضا قائم کرنے اور سنسر شپ لگانے کا عمل درست ہے ؟ قطعاً نہیں۔ جب کوئی معروف مولانا نفرت کا پرچار کرنے کیلئے آزاد ہوں لیکن گمنام سوشل میڈیا صارفین کو ریاست اور معاشرے کے لئے حقیقی خطرہ قرار دیا جارہا ہو ، اور جب ہماری ریاست بدترین دہشت گردی کے خطرے کا سامنا کررہی ہو اور ہمارے وزیر ِ داخلہ اخلاقی اقدار کے محافظ کا کردار ادا کرنے کے خواہش مند ہوں اور یہ بیانیہ ارزاں کرتے سنائی دیں کہ یہ اقدار سوشل میڈیا کی وجہ سے شدیدخطرے سے دوچار ہیں، تو اس کا مطلب یہ کہ سب ٹھیک نہیں ہے ۔سوشل میڈیا استعمال کرنے والے عناصر (مادر پدر آزاد؟)، جو ہماری عدلیہ اور فوج کی بے توقیری کے لئے شرفشانی کرتے ہیں، کو ڈرانے کے لئے بھی ریاست کی طرف سے نگرانی کا عمل قانونی، سیاسی، عقلی اور منطقی بنیادوں پر غلط ہے ۔
آرٹیکل 19 کے تحت آزادی ٔ اظہار کا حق ’’پاکستان کی سیکورٹی، یا دفاع، یا پبلک آرڈر، شائستگی ، اخلاقیات، یا توہین ِعدالت کے حوالے سے طے کردہ قانونی حدود‘‘ کے تابع ہے ۔ اگرچہ اس آرٹیکل کو استعمال کرتے ہوئے اُس آزادی کو سلب بھی کیا جاسکتا ہے یہ جس کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ، لیکن یہ اظہاریے کی جن اقسام کو غیر محفوظ قرار دیتا ہے ، اُنہیں مخصوص شرائط کے ساتھ ہی ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے ۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اظہار پر آزادی پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون کے مطابق ہو۔ دوسری یہ کہ پابندی معقول ہو اور اس کا ضروری جواز موجود ہو ، نیز اس کی وسعت بلا مبالغہ ہو۔ان شرائط کو پورا کرتے ہوئے ریاست اپنے مقاصد کے لئے اظہار کو محدود کرسکتی ہے ۔ ہمارے ہاں ایسے قوانین موجود ہیں جو نفرت انگیز تقاریر، اشتعال انگیز بیانیے اور عدلیہ کی توہین اورہتک کرنے والے تبصروں پر قدغن لگاتے ہیں۔ تاہم کوئی قانون بھی ایف آئی اے (یا وزارت ِ داخلہ ) کو اختیار نہیں دیتا کہ وہ سوشل میڈیا کے سنسر بورڈ کا کردار ادا کرے۔ پی ایم ایل (ن) حکومت کا نافذکردہ The Prevention of Electronic Crimes Act قابل ِ اعتراض شقیں رکھتا ہے جو اظہار کی آزادی کو سلب کرتی ہیں۔ بہت سے ناقدین کا اندازہ ہے کہ ان شقوں کا غلط استعمال کرتے ہوئے حکمران طبقے کے مفادات کو آگے بڑھایا جائیگا۔ حتیٰ کہ یہ ایکٹ(PECA) وزارت ِ داخلہ یا ایف آئی اے کو بھی سوشل میڈیا کو لگام ڈالنے کی کوئی اتھارٹی نہیں دیتا۔ PECA نفرت انگیز تقریر کو ایسی تقریر قرار دیتا ہے جو ’’ مذاہب، فرقوں یا نسلی بنیادوں پر نفرت کو مہمیز دے‘‘۔ PECA تشدد کو نمایاں کرنے ، دہشت پھیلانے کی غرض سے معلومات پھیلانے ، شہریوں کی کردار کشی کرنے اور بچوںکے جنسی مناظر کی فلموں کو مجرمانہ سرگرمی گردانتا ہے ۔ تاہم یہاں ان کا سوال نہیں ہے ۔ PECA کا سیکشن 18 ایسی جھوٹی معلومات کے پھیلائو کو مجرمانہ سرگرمی قرار دیتا ہے جو ’’کسی غیر جانبدار شخص کی نجی زندگی اور ساکھ کو نقصان پہنچائے یا خطرے میں ڈالے ‘‘۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ سیکشن عام شہریوں کے وقار اور نجی زندگی کے تحفظ کی ضمانت دیتاہے ۔ یہ اداروں کو حاصل نام نہاد مقدس گائے کے اسٹیٹس کا رکھوالا نہیں ہے ۔ PECA کا سیکشن 34 ’’غیر قانونی آن لائن مواد‘‘ کی وضاحت کرتا ہے اور اس کے الفاظ بھی وہی ہیں جو آئین کے آرٹیکل 19 کے ، لیکن یہ غیر محتاط تقریر کی اقسام کو مجرمانہ سرگرمی میں شمار نہیں کرتا ۔ یہ پی ٹی اے (پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی ) کو کسی ایسی تقریر کو بلاک کرنے یاحذف کرنے کا اختیار دیتا ہے ۔ باالفاظ دیگر، PECA کسی کو اداروں، جیسا کہ فوج یا عدلیہ کی ساکھ کا تحفظ کرنے کا اختیار نہیں دیتا ، اور نہ ہی ان اداروں کے خلاف تنقیدی بیان دینے والوں کے خلاف مجرمانہ کارروائی کا کہتا ہے ۔
سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی تجویز پریشان کن ہے کیونکہ اس کے پیچھے سیاسی محرک واضح دکھائی دیتا ہے ۔ پی ایم ایل (ن) نے 1990 ء کی تمام دہائی فوج کے ساتھ محاذ آرائی میں گزاری جس کا انتہائی نتیجہ مشرف کا ماشل لا تھا۔ اس نے عملی طور پر سپریم کورٹ پر حملہ کیا ۔ جب یہ ٹریک ریکارڈ ہو تو پھر ان اداروں کے تحفظ کے لئے اتنا جذباتی پن سمجھ سے باہر ہے ۔حال ہی میں دو واقعات پیش آئے ہیں، جن سے البتہ کچھ وضاحت ہوتی ہے۔ پاناماکیس کے اکثریتی فیصلے نے وزیر ِاعظم کے سر سے فوری نااہلی کا خطرہ ٹال دیا۔ اس فیصلے نے جہاں پی ایم ایل (ن) کو سانس لینے کا موقع دیا، اس نے پی ٹی آئی کو تائو دلادیا۔ جن دو جج صاحبان نے وزیر ِ اعظم کو دوٹوک الفاظ میں نااہل قرار دیا تھا، اُنہیں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیابریگیڈ نے ہیرو بنا کر پیش کیا۔ جب آئی ایس پی آر نے وزیر ِ اعظم کے دفتر سے جاری کردہ نوٹی فکیشن کو سر ِعام مسترد کردیا تو پی ٹی آئی اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے حکم عدولی پر جشن منایا اور اس کا دفاع پیش کیا ۔ جب فوج نے معقولیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹویٹ واپس لے لی اور فوج کے ہاتھوں پی ایم ایل (ن) کے پرَ کترے جانے کی امیدیں لگانے والوں کی تمنا دل ہی دل میں رہ گئی تو پی ٹی آئی نے آرمی چیف پر تنقیدی حملے شروع کردئیے ۔ اس مرتبہ پی ایم ایل (ن) نے آرمی چیف کی ستائش کی ۔
مختصر یہ کہ اس معاملے کا اصولوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اپوزیشن میں سیاسی جماعتیں آزادی ٔ اظہار کی چیمپئن دکھائی دیتی ہیں، لیکن جب وہی جماعتیں حکومت میں ہوں تو تنقید برداشت کرنے کی روادار نہیں ہوتیں ۔ وہ قومی سلامتی ، اداروں کے تقدس، جمہوریت کے خلاف سازش اور مبینہ مادر پدر آزادی کی آڑ میں تنقیدی رائے اور آزادی ٔ اظہار کو سلب کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ پی ایم ایل (ن) کو احساس ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے خوفناک سوشل میڈیا بریگیڈ کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ اسے یہ بھی احساس ہے کہ سوشل میڈیا مہم کے ذریعے ڈالا گیا دبائو حقیقی ہے ، اس لئے پی ٹی آئی کے ہاتھ میں آئے اس ہتھیار کا تدارک ضروری ہوچکا ہے ۔ اگر پی ایم ایل (ن) درحقیقت نفرت انگیز مواد کو روکنے کے لئے قانونی بازو استعمال کرنے میں سنجیدہ ہے تو بھی یہ تصور بنیادی طور پر غلط ہے ۔ بطور ایک قوم ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ ہم تاریخی طور پر اپنے اداروں کے بہت بڑے ناقد ہیں۔ اس کے برعکس مسئلہ یہ ہے کہ ہم ریاست کا بیانیہ کسی تنقیدی جائزے کے بغیر من و عن تسلیم کرلیتے ہیں۔ ریاستوں سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں، چنانچہ ہماری ریاست کو بھی کوئی استثنا حاصل نہیں۔ ہماری تاریخ غلطیوں کی گواہ ہے ۔ چنانچہ یہ تصورہی غلط ہے کہ چونکہ ریاستی اداروں کی دانائی ہر قسم کی غلطی سے پاک ہے ، چنانچہ اس پر کسی قسم کی تنقیدکی گنجائش نہیں۔
تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ افسران کی کردار کشی روا رکھی جائے یا ان کی سرگرمیوں کو ہمیشہ منفی نظر سے دیکھا جائے ۔ سرکاری افسران بھی ہماری طرح انسان ہیں، اُن کی عزت ِ نفس کا تحفظ بھی ضروری ہے ۔ لیکن پھر اُن کے لئے وہی توہین کے قوانین دستیاب ہونے چاہئیں جو عام شہریوں کو میسر ہیں۔ اگر نہیں، تو ان کی فعالیت درست کریں۔ افسران کے وقار کے تحفظ کے لئے ’’اداروں کے وقار ‘‘ کے نام پر شمشیر برہنہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ایک اور بات، ہمارے ادارے اتنے کمزور ہر گز نہیں کہ وہ محض تنقید کی بھی تاب نہ لا سکیں۔ ہماری سیاسی اشرافیہ کا خیال ہے کہ تنقیدی تصورات کسی وبائی مرض کی طرح ہوتے ہیں۔ یہ تصور شہریوں کے اختیار کی نفی ہے ۔ ’’آزادی ‘‘ کی دلیل انتہائی بودی ہے ۔ ایک بچے اور ایک باشعور شخص میں یہی فرق ہوتا ہے کہ ایک باشعور شخص ’’آزاد‘‘ہوتا ہے ۔ وہ اپنے افعال میں بااختیار، چنانچہ ذمہ دار ہوتا ہے ۔ ایک بچے کی فعالیت کی ذمہ داری اُس کے والدین پر ہوتی ہے، ایک بالغ شہری قانون کے سامنے اسی لئے آتا ہے کیونکہ وہ آزاد ہوتا ہے ۔ تو ہمارے وزیر ِ داخلہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟
اگر ہم اپنے نوجوانوں کو پوری طرح آزاد نہیں بنائیں گے تو اُن کی سوچ اور فکر کیسے پروان چڑھے گی؟شاید ہم نے اپنے نوجوان کو اتنی آزادی دی ہی نہیں،چنانچہ ہمارے ہاں عالمی شہرت یافتہ سائنسدان، موجد، مفکر اور دانشور ، لکھاری، فن کار اور ادیب پیدا نہیں ہورہے ہیں۔ کاش کوئی ہمیں اتنی آزادی دے کر فکری اور سیاسی جمود سے نجات دلائے۔

.
تازہ ترین