• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے چند روزسے ایف آئی اے سوشل میڈیاکو شر انگیز عناصر سے پاک کروانے کی مہم پر چل نکلی ہے۔ پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے حامی چند نوجوان افراد کو نہ صرف ایف آئی اے اسلام آباد حاضرہو کر اپنی صفائی دینے کے احکامات جاری کئے گئے بلکہ اطلاعات کے مطابق گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر کو تو ایف آئی اے والے اسکےاسپتال سے اٹھا کر اسلام آباد لے آئے ۔وزارت داخلہ کی ہدایت پر ایف آئی اے کی جانب سے عمل میں لائی جانے والی اس کارروائی کا مقصد سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے افراد کو سزا دلانابتایا جاتا ہے۔ لیکن ابتدائی طور پر جن افراد کو طلب کیا گیا ہے ان میں سے بظاہرایسی کسی سرگرمی میں ملوث نہیں دکھائی دیتے اور اگر ہیں بھی تو اس کی تفصیلات سے کسی کو آگاہ نہیں کیا جاتا۔
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل انیس جو ہمیں اظہار رائے کی آزادی کا حق دیتا ہے، وہ یقیناََ بہت سے معاملات میں اس آزادی پر قدغن بھی لگا دیتا ہے۔ بظاہر تو وزارت داخلہ کی جانب سے اسی بات کا سہارا لے کر کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے لیکن موجودہ حقائق کی روشنی میںیہ دلیل بہت کمزوردکھائی دے رہی ہے۔ اگر وزارت داخلہ سچ میں افواج پاکستان کے خلاف ہونے والی ہرزہ سرائی کو روکنا چاہتی ہے تو وہ کیوں نہیں ان افراد کے خلاف کارروائی کا آغاز کرتی جو کھل کر ان اداروں کی تضحیک کرتے ہیں۔ کیا وزارت داخلہ کو ہماری ٹی وی اسکرینوں پر بیٹھے علم کے موتی بکھیرتے افراد نظر نہیں آتے جو سرعام فوج میں سروے کروانے کے دعوے کرتے ہیں ؟ کیا یہ خود ساختہ فوج کے ترجمان ایسی باتیں کر کے پاکستان کی افواج کے مورال کو ٹھیس نہیں پہنچا رہے ہوتے؟ کیا ڈان لیکس کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے عمل کو انیس سو اکہتر میں بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے مشابہت دینے سے پاکستانی افواج کے مورال پر کوئی اثر نہیں ہوتا؟ صبح شام ٹی وی کی اسکرینوں پر بیٹھ کر افواج پاکستان کو جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کا مشورہ دینے والے یہ سقراط ملک سے غداری کے مرتکب تو نہیںٹھہرائے جاتے البتہ بے بس قسم کے نوجوانوں کو اٹھا کرکارروائی ضرور ڈال دی جاتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر کھل کر دہشت گردوں کی حمایت اور مذہبی منافرت پھیلانے والے افراد پر پیکا کا نہ تو اطلاق ہوتا ہے او ر نہ ہی توہین رسالت کے جھوٹے الزامات کی بنیاد پر کفر کے فتوے لگانے والوں سے کوئی پوچھ گچھ کی جاتی ہے؟ حد تو یہ ہے کہ ٹی وی چینل پر بیٹھ کر حقائق سے متصادم یہ دعویٰ کرنیوالوں کیخلاف بھی کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا کہ افواج پاکستان نے طالبان سے معاہدے کی خلاف ورزی کر کے انکو دھوکا دیا۔ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل طالبان کیلئے ہمدردی سمیٹنے کی کوشش کرنا غالباََ نہ ہی آئین پاکستان کی کسی شق کی خلاف ورزی ہے اور نہ ہی کسی ریاستی قانون کی۔
صاحب اقتدار لوگ دراصل یہ بھول جاتے ہیں کہ عوام کے جذبات اور ان کی آواز کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنا کبھی ممکن نہیں رہا۔ اب تو ٹیکنالوجی میں ترقی کے باعث ویسے بھی لوگوں کے خیالات کے اظہار پر کوئی بند نہیں باندھا جا سکتا۔ ایسے میںصرف زبانی جمع خرچ کے لئے چند نوجوان لوگوں کو نشانہ بنانے سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوگا،کسی کو ڈرا دھمکا کر اسے قائل نہیں کیا جا سکتا۔ میرا اپنا ذاتی تجربہ بھی اسی بات کا شاہد ہے، آج سے اڑتالیس سال قبل جب مجھے اور میرے ساتھیوں صادق مسیح اور علائو الدین کو جمہوریت مخالف قوتوں کے خلاف پوسٹر لگانے کے جرم میں گرفتار کرکے تھانہ مزنگ لاہور لے جایا گیا تو شاید اس وقت کے حکمرانوں کا خیال تھا کہ ہم سبق سیکھ جائیں گے اورمستقبل میں ایسی حرکتوں سے باز آجائیں گے۔
لیکن جن افراد کے سر پر کچھ کر گزرنے کی دھن سوار ہو وہ کسی گرفتاری یا کیس سے نہیں ڈرتے ، ہم بھی باز نہیں آئے۔ بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی تمام قیادت اگلے روز پورے شہر میں یہ پوسٹر چسپاں کرتے نظر آئی۔ پھر اگلے تین سال تک میں اور میرے بہت سے دوست اور ہم عصر مختلف تھانوں اور جیلوں کی ہوا تو کھاتے رہے لیکن جمہوریت کی بحالی کے مطالبے پر ڈٹے رہے۔ ایسا نہیں تھا کہ ان مقدمات اور جیل کے چکر وںمیںہمارا کوئی نقصان نہیں ہوا، بہت سے افراد کو یونیورسٹی سے نکالا گیا اور ڈگریوں سے محروم کر دیا گیا،کئی افراد کے کاروبار تباہ کر دیئے گئے ، بہت سوں کو نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑا، ان کے جیل جانے سے ان کے خاندان کو بھی بہت سی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔انیس سو ستر میں ون یونٹ کے ہوتے ہوئے جب میں گرمیوں کے موسم میں سبی جیل میں قید تھا تو میری ماں لاہور میں اپنے گھرپنکھے کے بغیر سوتی تھی کیونکہ اس کا بیٹا سبی جیل میںشدید گرمی سہہ رہا تھا۔پتہ نہیں اور کتنی مائیں بھی ایسے ہی اپنے بچوں کے بارے میں سوچتے ہوئے کرب کی کیفیت سے گزری ہوں گی۔ مگر اس کے باوجود میں اپنا اظہار رائے کا حق استعمال کرنے سے پیچھے نہیں ہٹا اور یہ حق ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں بھی استعمال کیا اور اس بار میری منزل لاہور قلعہ کا قید خانہ ٹھہری جہاں حنیف رامے، ایم کے خاکوانی، راجہ منور، ذاکر حسین ، غلام حیدر وائیںمیرے ساتھی تھے ۔حتیٰ کہ ہمیں ہائی کورٹ میں پیش نہ کرنے کے لئے آئین میںترمیم کر کے اسپیشل ٹربیونل تشکیل دے دیا گیا۔جب اس کے خلاف ضیاء شاہد نے اظہار حق کی رائے کا استعمال کیا تو انہیں بھی قلعہ میں ڈال دیا گیا۔جو پابندی اس دور میں نہ لگائی جا سکی وہ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں لگانے کی کوشش کرنے والے محض اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ ریاست کے خلاف سازش یا نفرت پھیلانے کا الزام ماضی میں بھی بہت سے افراد پر لگا اور ان میں سے بہت سے افراد بعد ازاں اسی ریاست میں باعزت عہدوں پر تعینات ہوئے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ آج کل کے نوجوان سوشل میڈیا کو صرف مثبت تنقید کے لئے ہی استعمال نہیں کرتے، اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں بہت سے افراد نہ صرف سوشل میڈیا کو لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے کے لئے استعمال کرتے ہیں بلکہ جھوٹی خبروں اور جعلی دستاویزات کوبنیاد بنا کر کسی بھی شخص کی عزت کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔ بہت سی سیاسی جماعتوں نے اپنے سوشل میڈیا سیل بھی بنا رکھے ہیں جن میں ایسے افراد کو بھرتی کیا گیا ہے جو پارٹی پر تنقید کرنے والے افراد کو سارا دن گالیوں سے نوازتے رہتے ہیں،لیکن کیا ان افراد کو فوجداری مقدمات کے تحت سزا دے دینی چاہئے؟بغیر ثبوت کسی کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے افراد کو یقینا سزا ملنی چاہئے لیکن یہ سزا مہذب معاشروں کی طرح سول عدالتوں سے جرمانوں کی صورت میں ہونی چاہئے نہ کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد دینے کے لئے بنائے خصوصی قانون کے تحت۔ ابھی پچھلے دنوں ہی برطانیہ میںایک نسل پرستانہ سوچ رکھنے والی صحافی خاتون کو ٹوئٹر پر غلط الزام لگانے کی سزا میں جرمانہ ادا کرنا پڑا، اگر ہماری حکومت کے اقدامات کا مقصد بھی سوشل میڈیا پرموجود جھوٹ اور بہتان کے طوفان کو روکنا ہے تو پہلے انہیں پارلیمنٹ میں ایسی قانون سازی کرنی چاہئے تھی جو عدالتوں کی جانب سے ہتک عزت کے دعووں پر جلد از جلد فیصلوں کو یقینی بنا ئے۔ دنیا بھر میں اظہار رائے کی آزادی کے غلط اور بے جا استعمال کو روکنے کے لئے یہی راستہ اختیار کیا جاتا ہے ۔افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری ریاست کی سوچ پچھلے پچاس سالوں میں تبدیل نہیں ہو پائی۔ ریاست اور اس کے ادارے آج بھی دھونس جما کر لوگوں کو اندھی تقلید پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہ کوشش پچھلے پچاس سالوں میں کامیاب نہیں ہو پائی تو اب کیسے کامیاب ہو گی؟ وقت کا تقاضا ہے کہ اہل اقتدار کچھ تنقید سننے کا حوصلہ بھی پیدا کریں نہیں تو حالات کی گتھیاں سلجھنے کی بجائے مزید الجھ جائیں گی جو بہر حال کسی کے حق میں بھی بہتر نہیں ہو گا۔

.
تازہ ترین