• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ نے زندگی میں ہمیں یہ دن بھی دکھانے تھے کہ امریکہ اور سعودی عرب مل کر مذہبی انتہاپسندی کے خلاف مشترکہ اتحاد بنائیں اور سعودی دارالحکومت ریاض میں اربوں کی لاگت سے انسداد انتہاپسندی کا مرکز قائم ہو، جس کا افتتاح ڈونلڈ ٹرمپ کریں ۔ ابھی چند سال قبل کی تو بات ہے کہ امریکہ کی سرپرستی میں عرب ممالک مولانا مودودی ، سید قطب اور دیگرشخصیات کے لٹریچر کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کراکر تقسیم اور مسلمانوں میں جہادی اور تکفیری سوچ کو فروغ دینے کے لئے اربوں ڈالر اور ریال صرف کرتے رہے ۔ تب نہ مجاہدین کے وہم و گمان میں تھا کہ ایک دن یہی امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک ان کے پیچھے پڑیں گے اور نہ امریکہ اور سعودی عرب وغیرہ نے کبھی سوچا تھا کہ یہی لوگ ایک دن ان کے لئے دردسر بن جائیں گے ۔ لیکن ایسا ہوا اور پندرہ بیس سال کے قلیل عرصہ میں ہوا۔اسے کہتے ہیں مکافات عمل ۔
اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ میاں نوازشریف کی سیاست کا درخت فوجی گملے میں پروان چڑھا۔ پھر جب فوجی ڈکٹیٹر نے ان کے سیاسی لیڈر محمد خان جونیجو کو رخصت کیا تو ان کے ایما پر انہوں نے ان کے ساتھ بے وفائی کی ۔ چند ہی سال بعد ایک اور فوجی ڈکٹیٹر کے ہاتھوں وہ اقتدار سے محروم ہوئے اور وہی کچھ ان کے ساتھ گجرات کے چوہدری برادران نے کیا جو انہوں نے محمد خان جونیجو کے ساتھ کیا تھا۔ اسی طرح فوج کے اشارے پر میاں صاحب نے بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک کہا اور ان پر ہندوستان کے ساتھ سازباز کا الزام لگا یا۔ تب ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کبھی انہیں بھی سیکورٹی رسک قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اللہ کی قدرت دیکھ لیجئے کہ آج صرف چند سال بعد انہیں سیکورٹی رسک کا طعنہ ملنے لگا اور ان پر اسی طرح ہندوستان کے ساتھ سازباز کے الزامات لگے جس طرح انہوں نے بے نظیر بھٹو پر لگائے تھے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر طرف مکافاتِ عمل کے نظارے ہیں لیکن افسوس کہ ہم دھیان نہیں دیتے ۔ کیا کسی کے وہم و گمان میں تھا کہ خالد خواجہ اور کرنل امام ان طالبان کے ہاتھوں مارے جائیں گے جن کو وہ اپنا شاگرد قرار دے رہے تھے اور جن کے وہ ہمہ وقت گن گاتے رہتے تھے ۔ اگر قاضی حسین احمد مرحوم کو یہ علم ہوتا کہ کسی دن میجر مست گل ،ان کے قتل کے منصوبے بنائیں گے تو کیا وہ ان جیسے لوگوں کی سرپرستی کرتے( واضح رہے کہ مہمند ایجنسی میں قاضی حسین احمد کو مارنے کے لئے جو دھماکہ کیا گیا تھا، اس کا منصوبہ چرار شریف کے مبینہ ہیرو میجر مست گل نے بنایا تھا) ۔ اسی طرح کیا کبھی ہم سوچ سکتے تھے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ طالبان مولانافضل الرحمان اور مولانا غفور حیدری جیسے لوگوں کو مارنے کے لئے خودکش حملے کریں گے لیکن ایسا ہوا اور ہورہا ہے ۔ مکافات عمل کے اصول کے تحت ہم نے دیکھا کہ وہ الطاف حسین جوایک فوجی ڈکٹیٹر کی پیداوار تھے اور جن کو نئی زندگی ایک اور فوجی ڈکٹیٹر یعنی جنرل پرویز مشرف نے دی ، ملک اور فوج کے لئے مصیبت بن گئے اور آج جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے جانشینوں کی اولین ترجیحات میں کراچی کو الطاف حسین سے آزاد کرانا بھی شامل ہے ۔ مکافات عمل کے اسی قانون کے تحت آج ان کو چیلنج کرنے والوں میں سب سے توانا آواز مصطفیٰ کمال کی ہے اور ان سے جان خلاصی کی کوشش کرنے والوں میں فاروق ستا رسرفہرست ہیں ۔پرویز مشرف کو دیکھ لیجئے ۔ وہ بڑے غرور سے کہا کرتے تھے کہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کے لئے پاکستان میں اب کوئی جگہ نہیں ۔اسی بے نظیر بھٹو کے ساتھ انہیں ڈیل کرنی پڑی ، وہ نوازشریف آج وزیراعظم ہائوس میں بیٹھے ہیں اور وہ پرویز مشرف آج پاکستان نہیں آسکتے ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ صحافی جنہوں نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بیساکھیوں کے سہارے صحافت کی اور جو ان کی ایما پر دوسروں کی عزتوں سے کھیلتے رہے ، آج سب سے زیادہ ان ایجنسیوں کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں اوردوسری طرف وہ سب سے زیادہ ان ایجنسیوں پر انگلیاں اٹھا کر اپنے دامن پر لگے ہوئے داغ کو دھونے کی کوشش کررہے ہیں ۔ غرض جو جس انتہاپر گیا ، زمانے کے جبر نے اُسے اس کی مخالف سمت میں دوسری انتہاپر جانے پر مجبور کیا۔ جس نے دوسروں کے لئے جو گڑھا کھودا، کسی نہ کسی وقت خود انہیں یا ان کی اولاد کو یا پھر ان کے پیروکاروں کو ا س میں گرنا پڑا ۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں لیتے ۔ یہ تو ماضی بعید کی نہیں بلکہ ماضی قریب کی تاریخ ہے اور یقین ہے کہ اب بھی ہم اس سے عبرت نہیں لیں گے لیکن مجھے تو ایمان کی حد تک مکافات عمل کے قانون پر یقین ہوگیا ہے اور اسی یقین کی بنیاد پر چند پیشگوئیاں کررہا ہوں ۔
سی پیک جس پر میاں نوازشریف اور جناب احسن اقبال نے اپنی سیاست اور کاروبار کی عمارت تعمیر کرلی ، ان دونوں کے لئے بالخصوص اور مسلم لیگ (ن) کے لئے بالعموم وبال جان بنے گا۔ مجھے اس معاملے میں حکومتی چالاکیوں کا اچھی طرح علم ہے اوریہ بھی جانتا ہوں کہ سردست ان کی چالیں بڑی کامیاب چل رہی ہیں ۔ مجھے یہ بھی علم ہے کہ وزیراعظم نے مولانا فضل الرحمان کو کس طرح رام کیا اور پرویز خٹک نے کس قیمت پر ان کے ساتھ اپنے صوبے کے حقوق کا سودا کرلیا۔ زندگی رہی تو ان ساری چالاکیوں اور ضمیر فروشیوں کو میں اس موضوع سے متعلق اپنی کتاب میں سامنے لائوں گا لیکن سردست اتنا عرض کروں کہ یہی سی پیک الٹا میاں نوازشریف کی سیاست کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا اور خدانخواستہ یہی سی پیک ان کے گلے کی ہڈی بن جائے گا۔
اسی طرح مجھے یقین ہے کہ قبائلی علاقے کسی نہ کسی مرحلے پر میاں نوازشریف ، مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی یا پھر ان کی اولادوں کے لئے وبال جان بنیں گے ۔ جب ہم یہی التجائیں جناب یوسف رضاگیلانی سے کیا کرتے تھے تو وہ اسی طرح ہماری گزارشات کو ہنسی مذاق میں ٹال دیتے تھے جس طرح آج کل یہ تینوں ٹال رہے ہیں ۔ تب گیلانی صاحب کی ترجیح بھی ان کی سیاست تھی ۔ وہ سوچ رہے تھے کہ میں تو ملتان میں رہتا ہوں اور وزیراعظم ہوں ۔ میرے بچوں کو کوئی قبائلی علاقوں سے کیا نقصان پہنچا سکتا ہے لیکن پھر میںنے ان کی وہ بے بسی دیکھی ہے کہ جب ان کا صاحبزادہ قبائلی علاقوں میں یرغمال تھا۔ اللہ کی قسم ان کا اوران کی اہلیہ کا دکھ دیکھ کر وہ ان دنوں میرے لئے پاکستان کے مظلوم ترین لوگ بن گئے تھے اور ایک دو مواقع پر ان کی حالت دیکھ کر میری آنکھوں سے بھی آنسو نکلے تھے ۔ مولانا اور اچکزئی صاحب نے اپنی چالیں خوش اسلوبی سے چل دیں ۔
میں کوششوں کے باوجود فاٹا کےانضمام کو پاکستان کی سیاسی قیادت کی ترجیحات میں شامل نہ کرواسکا۔ فاٹا کے ایم این ایز اور سینیٹرز کی اکثریت ( دو تین کا کردار نہایت قابل تعریف ہے ) کو میں ابن الوقتی اور ضمیر فروشی کی لعنتوں سے چھٹکارہ نہ دلا سکا ۔ لیکن لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ جن تین سیاسی رہنمائوں نے قبائلی علاقوں کے غلام اور مظلوم عوام کے قومی دھارے میں شمولیت کی راہ میں اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لئے رکاوٹیں ڈالیں ، ان کے لئے یا پھر ان کی اولاد کے لئے یہ قبائلی علاقے کسی نہ کسی مرحلے پر وبال جان بنیں گے ۔ وہ یہ بھی لکھ کر رکھ لیں کہ زمانے کے پہیے کو وہ الٹ سمت گھمانہیں سکتے ۔ ہم بھی جب تک زندہ ہیں ، با ز نہیں آئیں گے ۔
انشاء اللہ جلد یا بلدیر یہ قبائلی علاقے پاکستان کے قومی دھارے میں شامل ہوکر رہیں گے لیکن افسوس کہ قبائلی عوام ان قائدین کو اپنا محسن سمجھنے کی بجائے کچھ اورسمجھیں گے اور افسوس کہ مکافات عمل کے قانون کے تحت انہیں بھی اپنے اس رویے کی قیمت چکانی ہوگی ۔
اسی طرح میں لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ عمران خان اور پی ٹی آئی قیادت کی عزت کےتابوت میں آخری کیل سوشل میڈیا ہی ٹھونکے گا ۔ ان کے ایک ایم این اے کے گھر والوں کو پڑنے والی گالیوں سے تو مکافات عمل کا سلسلہ شروع ہوگیا لیکن یہ آغاز ہے انجام ہر گز نہیں ۔ مکافات عمل کے اس اصول کے تحت مجھے مستقبل میں پی ٹی آئی کی قیادت کی عزتیں خطرے میں نظر آرہی ہیں ۔ یہ بات بھی اٹل ہے کہ ان پر غداری کے الزامات بھی لگیں گے اور انہیں بھی القابات سے نوازاجائے گا۔ اسی طرح مکافات عمل کے اصول کے تحت اس بات سے بھی مفر ممکن نہیں کہ پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کے لئے وبال جان بن جائے اور اس کا اصل نوٹس اسٹیبلشمنٹ ہی لے۔ فوج کو گالی دینے کے جرم میں پی ٹی آئی کے بعض سوشل ایکٹوسٹ کی گرفتاریوں سے اس عمل کا آغاز ہوچکا ہے ۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
آنے والے کل کا علم اللہ کو ہے۔ اس لئے میں پیشگوئیوں سے عموماً گریز کرتا ہوں لیکن مکافات عمل کا قانون بھی اللہ ہی کا بنایا ہوا ہے اور مجھے تو اس قانون پر ایمان کی حد تک یقین ہے ۔

.
تازہ ترین