• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سی ایس ایس امتحانات 2016ءکے نتائج کےمطابق تقریبا دس ہزار امیدواروں میں سے 202 امیدوار کامیابی حاصل کر سکے۔ یعنی کامیابی کی شرح تقریبا2 فیصد رہی۔98فیصد امیدوار فیل ہو گئے۔ ایک وقت تھا کہ سی ایس ایس کے امتحان کو "مقابلے کا امتحان" کہا جاتا تھا۔تاہم اب مقابلے کا عنصر اس میں سے خارج ہو چکا۔یہ ہرگز کوئی نئی صورتحال نہیں ہے ۔ گزشتہ پانچ برس سے ان امتحانات میں کامیاب امیدواروں کی تعداد میں مسلسل کمی ہو تی جا رہی ہے۔ اس صورتحال کی مختلف توجیحات پیش کی جاتی ہیں۔ ایک نقطہ نظر کےمطابق نوجوانوں کیلئے سول سروس میں پہلے جیسی کشش باقی نہیں رہی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بیوروکریسی بیحد سیاست زدہ ہو چکی ہے ، یہی وجہ ہےکہ پڑھے لکھے نوجوان اسکا حصہ بننے سے گریزاں ہیں۔ ناقص معیار تعلیم کو بھی ابتر نتائج کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ لگتا یہی ہے کہ ناقص معیار تعلیم سی ایس ایس کے خراب نتائج کی سب سے بڑی وجہ ہے۔چند روز قبل چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد نے بتایا کہ انہوں نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے گزشتہ پانچ سالوں کا امتحانی ڈیٹا منگوایا ہے تاکہ جائزہ لیا جا سکے کہ سی ایس ایس امتحانات میں اتنی بڑی تعداد میں امیدوار وں کی ناکامی کی وجوہات کیا ہیں۔ یوں تو ایچ ای سی کو یہ کام چند برس قبل کر لینا چاہئے تھا، تاہم اب اگر یہ اقدام اٹھایا گیا ہے تو امید ہے کہ جلد وجوہات کا تعین کیا جائیگا، باقاعدہ رپورٹ مرتب ہو گی اور اسکی روشنی میں کوئی لائحہ عمل طے پائے گا۔
ہمارے نظام تعلیم کے حوالے سے یوں بھی کئی سوالات گردش کرتے رہتے ہیں۔درحقیقت تمام وفاقی اور صوبائی حکومتیں، انکا تعلق خواہ کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، تعلیم کے حوالے سے کاوشیں کرتی رہی ہیں۔ ان کوششوں کے نتیجے میںکچھ نہ کچھ بہتری بھی نظر آتی ہے ۔ خوش آئند امر ہے کہ عوام الناس میں بھی تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے آگہی پیدا ہوئی ہے۔ تاہم بیشتر معاملات میں اب بھی انتہا درجے کی بہتری درکار ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ کئی دہائیا ں گزرنے کے باوجود ہم پرائمری تعلیم کا سو فیصد ہدف حاصل نہیں کر پائے۔ لاکھوں بچے اسکول میں داخل ہونے سے محروم ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کی صورتحال بھی مختلف نہیں۔تعلیمی درسگاہوں اور اساتذہ کا انتہائی فقدان ہے۔ تشویشناک پہلو مگر یہ ہے کہ مقدار (quantity) کیساتھ ساتھ معیار(quality) کی صورتحال بھی تسلی بخش نہیں۔ اربوں روپے خرچ کر نے کے باوجود، معیار تعلیم اکثر زیر تنقید رہتا ہے۔ اگر اعلیٰ تعلیم کی بات کریں تو بلاشبہ ا یچ ای سی کے قیام کے بعد کالجوں اور جامعات کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھی ہے۔تحقیق کے رجحان کو بھی تقویت ملی ۔ ایچ ای سی کی ہی بدولت سینکڑوں اساتذہ اور طالب علم اس قابل ہوئے کہ بیرون ممالک تعلیم حاصل کر سکیں ۔اسکے باوجود ہم اس سرمایہ کاری کے مطلوب ثمرات سمیٹنے سے قاصررہے ہیں۔ وجہ یہ کہ ہمارے ہاں تعلیم پر سرمایہ کاری تو کی گئی، مگر ٹھوس منصوبہ بندی کی جانب کوئی توجہ نہیں رہی۔ تعلیمی معاملات میں ہم بے سمتی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ برسوں بیت چکے مگر تاحال ہم یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ذریعہ تعلیم اردو ہو یا انگریزی۔ کوئی عدالتی یا حکومتی حکمنامہ جاری ہوتا ہے تو چند روز کیلئے ہم" نفاذ اردو" کے اہتمام میں جت جاتے ہیں۔اور پھر اچانک ہمیں یاد آتا ہے کہ انگریزی کے بغیر ہم دنیا سے مزیدپیچھے رہ جائیں گے۔معلوم نہیں کہ اس ضمن میں اتفاق رائے سے کوئی واضح حکمت عملی وضع کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ اسی طرح چھ برس قبل ہم بلندآہنگ سیاسی نعروں کے بعد ا ٹھارویں آئینی ترمیم کر بیٹھے ۔ اب سنتے ہیں کہ صوبے بااختیار تو ہیں مگر انکے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ تعلیمی نظام میں اصلاحات کر سکیں۔ مثلا ابھی تک صرف پنجاب اور سندھ حکومتیں اپنے صوبائی ہائیر ایجوکیشن کمیشن قائم کر سکی ہیں۔جبکہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان نے وفاقی ہائیر ایجوکیشن کمیشن پر تکیہ کر رکھا ہے۔قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ صوبائی اور مرکزی کمیشنزکے مابین اختیارات کی جنگ جاری ہے۔ اس کھینچا تانی کے اثرات وائس چانسلر صاحبان اور تعلیمی ادارے پر بھی پڑتے ہیں۔ برسوں سے یہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں زیر غورہے۔سوال یہ ہے کہ اس اہم معاملے کو ابھی تک کیوں نہیں نمٹایا گیا؟ہمارے ہاں تعلیم حکومتوں کی ترجیحات میں شامل تو ہوتی ہے، مگر کبھی کسی حکومت کی ترجیح اول نہیں بن سکی۔ یہی بات ہے کہ اہم تعلیمی معاملات تاخیر کا شکار رہتے ہیں۔ پنجاب ہی کو دیکھ لیں۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے صوبے میں جوتعلیمی اصلاحات کی ہیں وہ قابل تحسین ہیں۔ غریب طلباو طالبات کی امداد اور حوصلہ افزائی کیلئے شہباز شریف صاحب کی ذاتی دلچسپی بھی انتہائی قابل ستائش ہے۔ دوسری طرف صوبے کی گیارہ جامعات میں وائس چانسلرز کی تعیناتی کئی ماہ سے تاخیر کا شکار ہے۔جامعہ پنجاب سمیت چند جامعات کا معاملہ عدالت میں تھا ۔ اس کیس کا فیصلہ ہوئے بھی ایک ماہ کا عرصہ گزر چکا۔ان تعلیمی اداروں میں بے یقینی کی کیفیت نظر آتی ہے۔ سنتے ہیں کہ جناب وزیر اعلیٰ کی مصروفیات کے باعث اس معاملے میں تاخیر ہو رہی ہے۔ اصولا کسی بھی مصروفیت کو جامعات میں سربراہان کی تعیناتی کی راہ میں آڑے نہیں آنا چاہیے۔ معیشت کی بحالی اور انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ ہمیشہ مسلم لیگ(ن) کی ترجیحات میں سر فہرست ہوتی ہیں۔ ان کاموں کیلئے اچھی افرادی قوت درکار ہوتی ہے ، جو تعلیمی درسگاہیں مہیا کرتی ہیں۔ یعنی تعلیم کو ترجیح اول بنائے بغیر تعمیر و ترقی ممکن ہی نہیں۔ہمارے ہاںیہ معاملہ بھی زیر بحث رہتا ہے کہ نوجوانوں میں انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔ان میں سماجی اور اخلاقی اقدار کا فقدان ہے۔انکی ذہنی استعداد کار محدود ہے۔ بیرون ممالک ہماری ڈگریوں کی اہمیت نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ جیسی ہماری تعلیمی ترجیحات ہونگی ، ویسی ہی نوجوان نسل تعلیمی ادارے ،معاشرے کو فراہم کریں گے۔
اگر ہمیں پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنا ہے، اپنے سماج میں بہتری لانا ہے، تو نوجوان نسل کی تعلیم پر توجہ دینا ہو گی۔ اور صرف تعلیم پر نہیں ، انکی تربیت پر بھی۔ اس پہلو پر بھی غور ہونا چاہئے کہ تربیت اور اخلاقیات جیسے عناصر ہمارے تعلیمی نظام سے نکل چکے ہیں۔ خاص طور پر اعلیٰ تعلیم کا نظام صرف ڈگری دینے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ مزید زیادتی یہ کہ تحقیقی مقالے لکھنے کی ایک اندھی دوڑ ہے جس میں جامعہ کے استاد کو الجھا دیا گیا ہے۔ اس صورتحال نے کلاس روم میں استاد کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ لازم ہے کہ اس معاملے کا کوئی حل نکالا جائے۔اس سے پہلے کہ کافی دیر ہو جائے، ارباب اختیار کو اس پر غور کرنا ہو گا۔

.
تازہ ترین