وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار نے گزشتہ روز آئندہ مالی سال کے لیے 1480ارب روپے کے خسارے پر مشتمل 47.53 کھرب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کردیا جسے غیر جانبدار مبصرین نے ترقی اور عوامی مقبولیت کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی اچھی کوشش قرار دیا ہے۔ نئے بجٹ میں ترقیاتی پروگرام کے لیے ملک کی تاریخ میں سب سے زیادہ یعنی 1001 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔قرضوں کے سود پر 1363 ارب روپوں کے خطیر مالی وسائل خرچ ہوں گے جبکہ دفاع کے لیے920 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو رواں مالی سال کے مقابلے میں سات فی صد زیادہ اور مجموعی بجٹ کا 19.36 فی صد بنتا ہے۔ دفاع پر اخراجات قومی سلامتی کے لیے ناگزیر ہیں جبکہ قرضوں پر سود ہماری مجبوری ہے تاہم معاشی حکمت عملی میں مزید بہتری لاکر قرضوں اور سود کے بوجھ کو کم سے کم کرنے کی کوشش مسلسل جاری رہنی چاہیے۔ آپریشن رد الفساد میں بے گھر ہونے والوں کی بحالی کے لیے 90 ارب روپے اور ٹی ڈی پیز کی کفالت، واپسی ، آباد کاری اور علاقے کے ترقیاتی اخراجات کی مد میں قابل تقسیم پول کا تین فی صد حصہ مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو یقیناً وقت کی ضرورت ہے۔ مسلح افراد کے تمام افسروں اور جوانوں کو تنخواہ کا دس فی صد ردالفساد الاؤنس دینے کا اعلان یقینا مستحسن ہے ۔ تقریباً پانچ سوارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں جس کے لیے 565 اشیاء پر ڈیوٹی عائد کی گئی یا شرح میں اضافہ کیا گیا ہے۔اس کے نتیجے میں سی این جی، مشروبات، سیمنٹ، کپڑے، خشک دودھ، پان، چھالیہ، سیگریٹ، برقی آلات، منرل واٹر،فرنیچر، میک اپ کا سامان،ڈبہ بند خوراک،درآمدی چاکلیٹ، چشمے ، جوتے مہنگے ہوجائیں گے ، ان میں سے متعدد اشیاء عام آدمی کے استعمال کی ہیں جن کی قیمت بڑھنے سے اس کی مشکلات میں یقینا اضافہ ہوگا اس لیے اس فہرست کا دوبارہ جائزہ لیا جاناضروری نظر آتا ہے۔ موبائل کالز، مرغی، کھاد،کاریں، بے بی ڈائپرز، تعلیم، خام مال میں رعایت دی گئی ہے لہٰذا ان کی قیمتوں میں کمی متوقع ہے ۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں دس فی صد اضافے ،کم از کم اجرت پندرہ ہزار روپے مقرر کرنے ، بیواؤں کے پانچ لاکھ روپے تک کے ہاؤس بلڈنگ کے قرضوں کی ادائیگی حکومت کی جانب سے کیے جانے ،یوتھ اسکیم کے تحت گاڑیوں پر ودہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے ، زراعت نیز چھوٹے اور بڑے کاروبار اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کو ٹیکس میں چھوٹ دینے کی تجاویزعوامی مفاد میں ہیں اور ان کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ 2018ء کے موسم گرما تک نیشنل گرڈ کو مزید دس ہزار میگاواٹ بجلی کی فراہمی شروع اور لوڈ شیڈنگ ختم ہوجانے کی یقین دہانی یقینا پوری قوم کے لیے خوشخبری ہے۔بجٹ میں بے نظیر انکم سپورٹ اسکیم سے مستفید ہونے والے 55 لاکھ افراد کے لیے 121 ارب روپوں کا رکھا جانا بھی خوش آئند بات ہے لیکن اس رقم کے درست استعمال کے لیے نگرانی کا مؤثر نظام بھی لازمی ہے۔آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ میں مقرر کردہ اہم اہداف کی رو سے شرح ترقی 6 فی صد مقرر کی گئی ہے جبکہ رواں مالی سال میں یہ شرح 5.3 فی صد رہی ہے جو پچھلے بجٹ میں مقرر کردہ ہدف سے زیادہ ہے لہٰذا نئی شرح کے حاصل کرلیے جانے کے امکانات بھی روشن ہیں۔ تاجروں اور صنعت کاروں نے بجٹ پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان نے بجٹ کو متوازن قرار دیا ہے،فیڈریشن کے صدر زبیر طفیل کا کہنا ہے کہ حکومت اگر بجلی کی قیمت میں تین روپے فی یونٹ کمی کردے تو ہم برآمدات کو دوبارہ 25 ارب ڈالر کی سطح تک لے جاسکتے ہیں ، یہ مطالبہ پورا کرنے کی کوشش لازماً کی جانی چاہیے تاکہ توازن ادائیگی بہتر بنایا جاسکے۔ چاول کے برآمد کنندگان کی تنظیم کے سربراہ کے مطابق حکومت کی جانب سے دنیا بھر میں پاکستانی چاول کے گودام بنانے کے ہمارے مطالبے کو تسلیم کرلیا گیا ہے جس سے چاول کی برآمد نمایاں طور پر بڑھے گی،لیدر ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کے بقول خام چمڑے پر ڈیوٹی میں کمی سے لیدر انڈسٹری ترقی کرے گی، یہ تبصرے اطمینان بخش ہیں تاہم بلڈرز کی تنظیم آباد نے سیمنٹ کی قیمت میں اضافے اور دیگر اقدامات پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے چلتی ہوئی صنعت کو بٹھانے کی کوشش قرار دیا ہے جو یقینا قابل توجہ معاملہ ہے۔ عام آدمی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بجٹ میں عام طور پر ہرسال سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں تو اضافہ کیا جاتا ہے لیکن پرائیویٹ سیکٹر کے ملازمین کے لیے ایسا کوئی اقدام تجویز نہیں کیا جاتا جبکہ ان کی تعداد سرکاری ملازمین سے کئی گنا زیادہ ہے اور بجٹ کے بعد روایتی طور پر لامحالہ ہونے والی مہنگائی کے سبب ان کے لیے زندگی مزید دشوار ہوجاتی ہے۔ تعلیم اور صحت کے بجٹ میں اضافہ ضرور کیا گیا ہے لیکن ہائرایجوکیشن کمیشن کے لیے پچھلے سال سے کم رقم رکھی گئی ہے جس پر نظر ثانی ضروری معلوم ہوتی ہے۔ امیدہے کہ بجٹ کی پارلیمنٹ سے حتمی منظوری کے عمل کے دوران اس میں مزید بہتری آئے گی اور اس کی خامیاں دور کی جاسکیں گی۔بجٹ تقریر کے آغاز میں وزیر خزانہ نے بجا طور پر اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت پانچویں بار بجٹ پیش کررہی ہے۔ جمہوریت کا یہ استحکام بلاشبہ ملک اور قوم کے لیے نیک فال ہے ۔ اپنی حکومت کے پچھلے چار برسوں کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہوئے اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ ’’2013ء میں ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، مالی خسارہ آٹھ فی صد سے بڑھ چکا تھا،توانائی کا بحران حد سے زیادہ تھا جبکہ آج مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کی شرح5.3 فی صد ہے جو پچھلے دس سال میں ترقی کی بلند ترین شرح ہے۔’’سابقہ اور موجودہ ادوار حکومت کا یہ موازنہ ایسے حقائق پر مبنی ہے جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا اور موجودہ حکومت اور اس کی اقتصادی ٹیم ان کامیابیوں کے لیے بجاطور پر مبارکباد کی حق دار ہے۔اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ورلڈ بینک سمیت کئی عالمی اداروں اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی موجودہ حکومت کی معاشی کامیابیوں کا اعتراف کیا ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ نئے بجٹ کے نتیجے میں ملکی معیشت مزید مستحکم ہو گی اور جو اقتصادی اہداف پچھلے سالوں میں حاصل نہیں ہو سکے اگلے سال حاصل کر لئے جائیں گے۔
.