• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہوتے ہی، بلکہ اس سے کچھ پہلے سے وطن عزیز میں مہنگائی کا جو سیلاب آجاتا ہے اس کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ سوائے اس ایک بات کے کہ ہم نے بعض چیزوں کو اپنی روایات اور عادتوں کا حصہ بنالیا ہے۔ دین متین اسلام ہمیں سادگی اختیار کرنے، اسراف سے بچنے اور غریبوں محتاجوں کی مدد کرنے کی اس طور پر تلقین کرتا ہے کہ ہم نہ صرف اپنے اضافی مالی وسائل ان پر خرچ کریں بلکہ روزمرہ ضرورتوں میں کفایت کرکے مزید بچت کریں۔ اس لئے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ زائد منافع لینے کی بجائے کم منافع لینے کا رجحان نظر آتا۔ مہنگائی کی ایک وجہ افطار و سحر کے لوازمات کے نام پر بیسن، چنوں، چنے کی دال، پکوان کے سامان، دودھ دہی اور کھجور وغیرہ کی زیادہ مانگ کو قرار دیا جاتا ہے۔ عید کے موقع پر نئے کپڑوں، جوتوں وغیرہ کی خریداری کا موقع بھی بہت سے خاندانوں کو اسی ماہ میں ملتا ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں اور ہرضلع اور شہر کی انتظامیہ کو گیارہ ماہ پہلے سے علم ہوتا ہے کہ رمضان میں کن کن چیزوں کی کتنی کتنی ضرورت ہوگی تو ان چیزوںکی بروقت، وافر اور کم قیمت پر فراہمی کا پہلےسے بندوبست اس طرح کیوں نہیں ہوسکتا جس طرح سعودی عرب میں حج کے موقع پر ہوجاتا ہے اور یہ بات یقینی بنائی جاتی ہے کھانے پینے کی معیاری اشیاء مقررہ قیمت سے زائد پر بیچنے کا خیال بھی کسی کے دل میں نہ آئے۔ تہواروں اور دیگر خاص مواقع پر تقریباً تمام ہی ضروری اشیاء کی کم نرخوں پر فراہمی کو کئی مسلم ریاستوں اور تقریباً پورے مغرب میں روایت کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ وطن عزیز میں اگر یہ سب نہیں ہوپارہا ہے تو جائزہ لیا جانا چاہئے کہ کس کس شعبے میں کیا کیا چیزیں اصلاح طلب ہیں اور انہیں کیسے درست کیا جاسکتا ہے۔ مصنوعی قلت پیدا کرنے والے ذخیرہ اندوز ہوں یا ملاوٹ کرنیوالے عناصر، حکومتی مشینری کی نظروں سے اوجھل نہیں۔ ان سب پر قانون اور ضابطوں کا سختی سے اطلاق کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ اس معاملے میں غفلت کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔

.
تازہ ترین