• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رمضان المبارک قریب آتا ہے تو مجھے ہمیشہ غزوۂ بدر یاد آجاتا ہے کیوں کہ 2ہجری کے رمضان المبارک ہی میں غزوۂ بدر برپا ہوا اور 2ہجری ہی میں رمضان کا روزہ اور صدقہ فطر فرض ہوا۔ یہ بھی خوش گوار اتفاق ہے کہ مسلمانوں نے اپنی زندگی کی پہلی عید بھی شوال 2ہجری میں ہی منائی، جو غزوۂ بدر کی فتح مبین کے بعد پیش آئی۔
ہوسکتا ہے کہ آپ غزوۂ بدر کے بارے میں پہلے ہی سے بہت کچھ جانتے ہوں، ایسی صورت میں تذکیر ہو جائے گی اور تاریخ کی یادیں تازہ ہو جائیں گی۔ اگر آپ اس غزوہ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تو یقیناً زیر نظر سطور آپ کی معلومات میں اضافے کا باعث بنیں گی۔
غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ اور مشرکین کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ تھی۔ اسلامی لشکر نے بدر کےقریب نزول فرمایا اور معرکے کے ایک روز قبل حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے لشکر کو حرکت دی تاکہ مشرکین سے پہلے بدر کے چشمے پر پہنچ جائیں۔ اس موقع پر حضرت حبابؓ بن منذر نے ایک ماہر فوجی کی حیثیت سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہﷺ کیا آپؐ اس مقام پر اللہ کےحکم سے نازل ہوئے ہیں یا اسے جنگی حکمت عملی کے طور پر منتخب کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ جنگی حکمت عملی کے طور پر۔ انہوں نے کہا یہ مناسب جگہ نہیں ہے، آپؐ آگے تشریف لے چلیں اور قریش کے سب سے قریب جو چشمہ ہو اس پر پڑائو ڈالیں، پھر ہم بقیہ چشمے پاٹ دیں گے اور قریش کو پانی نہیں ملے گا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا تم نے بہت ٹھیک مشورہ دیا، پھر آپؐ نے قریب ترین چشمے پر پہنچ کر پڑائو ڈال دیا۔ صحابہ کرامؓ نے حوض بنایا اورباقی تمام چشموں کو بند کردیا۔ گویا باہمی صلاح مشورہ ضروری ہے اور اچھی تجویز اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔
اللہ عزوجل نے اسی رات بارش نازل فرمائی جو مشرکین پر موسلادھار برسی اوران کی پیش قدمی میں رکاوٹ پیدا ہوگئی۔ لیکن مسلمانوں پر پھوار کی مانند برسی اور انہیں تازہ اور پاک کرگئی۔ اس بارش کی بدولت زمیںمیں سختی آگئی اور مسلمانوں کے قدم ٹکنے کے لائق ہوگئے۔ اس کے بعد حضور پاکؐ نے لشکر کی ترتیب فرمائی اور میدان جنگ میں تشریف لے گئے۔ وہاں آپؐ اپنے ہاتھ سے اشارہ فرماتے جارہے تھے کہ یہ جگہ کل فلاں کی قتل گاہ ہے اور ان شاء اللہ یہ جگہ فلاں کی قتل گاہ۔ اس کے بعد حضور پاکؐ نے وہیں ایک درخت کی جڑ کے پاس رات گزار دی۔ مسلمانوں کے دل اعتماد کے نور سے منور تھے۔ یہ شب جمعہ 17رمضان المبارک کی رات تھی اورآپ آٹھ یا بارہ رمضان کو مدینے سے روانہ ہوئے تھے۔ دوسری طرف قریش نے وادی کے دہانے کے باہر اپنے کیمپ میں رات گزاری۔ ایک گروہ رسول اللہ کے حوض کی جانب بڑھا۔ آپؐ نے فرمایا انہیں چھوڑ دو، ان میں سے جس نے پانی پیا وہ اس جنگ میں مارا گیا۔ صرف حکیم بن جزام باقی بچا جو بعد میں اچھے مسلمان ثابت ہوئے۔
جب مشرکین کا لشکر نمودار ہوا تو رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’یہ قریش ہیں، جو اپنے غرور و تکبر کے ساتھ تیری مخالفت کرتے اور تیرے رسول کو جھٹلاتے ہوئے آئے ہیں۔ اے اللہ تیری مدد ..... جس کا تو نے وعدہ کیا ہے۔ اے اللہ آج انہیں اینٹھ کر رکھ دے۔‘‘
اس معرکے کا پہلا ایندھن اسود بن عبدالاسد مخزومی بنا جو بڑا بدخلق انسان تھا۔ وہ اعلان کرتے ہوئے نکلا میں ان کے حوض کا پانی پی کر رہوں گا۔ ادھر سے حضرت حمزہؓ نکلے جنہوں نے اسے تلوار سے ڈھیر کردیا۔ جنگ کی آگ بھڑک اٹھی۔ قریش کے تین بہترین شہسوار نکلے۔ مقابلے کے لئے انصار کےتین نوجوان آئے۔ قریشیوں نے مطالبہ کیا کہ ہمارے سامنے ہماری قوم کے ہمسروں کوبھیجا جائے۔ رسول اللہ نے فرمایا:’’عبیدہؓ بن حارث اٹھو، حمزہؓاٹھو، علیؓ اٹھو۔ حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے اپنے مدمقابل کو جھٹ مار لیا لیکن حضرت عبیدہؓ اور ان کے مدمقابل کے درمیان ایک ایک وار کا تبادلہ ہوا۔ دونوں کو گہرے زخم آئے۔ اتنے میں حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ فارغ ہو کر عتبہ پر ٹوٹ پڑے اور اس کا کام تمام کردیا۔ اپنے تین شہسواروں کو کھونے کے بعد مشرکین غیط و غضب سے حملہ آورہوئے۔ گھمسان کا رن پڑا تو آپ دعا میں انتہائی خشوع و خضوع سے مصروف تھے۔ پھر وحی نازل ہوئی، ترجمہ (میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا جو آگے اور پیچھے سے آئیں گے) اس کے بعد حضورﷺ کو جھپکی آئی۔ آپؐ نے سر اٹھایا اور فرمایا: ابوبکر خوش ہو جائو۔ یہ جبریل ہیں۔ ان کے بعد آپؐ چھپر سے باہر تشریف لائے۔ آپؐ نے ایک مٹھی کنکریلی مٹی لی اور قریش کی جانب پھینکی، پھر مشرکین میں سے کوئی بھی نہ تھا جس کی آنکھوں، نتھنوںاور منہ میں اس مٹی میں سے کچھ نہ کچھ نہ گیاہو۔ اس لڑائی میں فرشتوں نے بھی مدد فرمائی۔ چنانچہ ابن سعد کی روایت میں حضرت عکرمہؓ سے مروی ہے کہ اس دن آدمی کا سر کٹ کر گرتا اور پتا نہ چلتا کہ اسے کس نے مارا ہے، ہاتھ کٹ کر گرتا اور پتا نہ چلتا کہ اسے کس نے کاٹا۔ ایک انصاری حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب کو قید کر کے لائے تو حضرت عباس کہنے لگے: ’’واللہ! مجھے اس نے قید نہیں کیا، مجھے ایک بے بال کے سر والے آدمی نے قید کیا، جو نہایت خوبرو تھا اور چتکبرے گھوڑے پر سوار تھا۔ معرکہ ختم ہوا تو رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’ابوجہل کا انجام کیا ہوا؟‘‘ حضرت عبداللہؓ بن مسعود نے اس کا سر کاٹا اور آپ کی خدمت میں لا کر پیش کردیا۔ آپؐ نے فرمایا چلو مجھے اس کی لاش دکھائو۔ لاش دیکھ کر آپؐ نے فرمایا یہ اس امت کا فرعون تھا۔ غزوہ بدر معرکہ حق و باطل تھا، جس میں حضرت عمرؓ بن خطاب نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو قتل کیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے بیٹے عبدالرحمٰن کو، جو اس وقت تک مشرکین کے ساتھ تھے، پکار کر کہا: او خبیث، میرا مال کہاں ہے؟ عبدالرحمٰن نے کہا ہتھیار، تیز روگھوڑے اور اس تلوار کے سوا کچھ باقی نہیں جو بڑھاپے کی گمراہی کا خاتمہ کرتی ہے۔ اس جنگ میں خونی رشتے باطل ٹھہرے اور مذہبی و دینی رشتے اصل رشتے قرار پائے۔ جنگ کے دوران حضرت عکاشہؓ بن محض اسدی کی تلوار ٹوٹ گئی۔ رسول اللہؐ نے انہیں لکڑی کا ایک پھٹا تھما دیا۔ عکاشہؓ نے اسے ہلایا تو وہ ایک لمبی، مضبوط اور چم چم کرتی سفید تلوار میں تبدیل ہوگیا۔ یہ تلوار مستقل طور پر حضر ت عکاشہؓ کے پاس رہی اور وہ اسے بعد ازاں شہادت تک استعمال کرتے رہے۔ مشرکین کی لاشوں کو کنویں میں ڈالا جارہا تھا تو عتبہ بن ربیعہ کی لاش کو گھسیٹ کر لایا گیا۔ رسول اللہ نے حضرت حذیفہؓ کودیکھا تو غمزدہ ہوگئے۔ آپؐ نے فرمایا: غالباً اپنے والد کے بارے میں تمہارے دل میں کچھ احساسات ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا : ’’واللہ نہیں، یا رسول اللہؐ میرے دل میں اپنے باپ کے قتل کے بارے میں ذرا بھی لرزش نہیں۔‘‘ اس پر حضورؐ نے حضرت حذیفہؓ کے لئے دعا فرمائی۔
تفصیلات کو اختصار کے کوزے میں بند کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ غزوہ بدر ، جو کفر اور اسلام کے درمیان پہلا فیصلہ کن معرکہ تھا، اپنے اندر بے شمار روشن سبق سموئے ہوئے ہے۔ مثلاً یہ کہ اگر رضائے الٰہی حاصل اور شامل ہو تو اسلحہ اور تعداد کوئی معانی نہیں رکھتے، اسلام میں رشتے خون سے نہیں بلکہ دین سے طے ہوتے ہیں۔ مسلمانوں میں اگر شوق شہادت زندہ اور روشن ہو انہیں کوئی طاقت نہیں شکست دے سکتی، غرور اور شرک بالآخر خاک میں ملتا اور رسوا ہوتا ہے۔
جو لوگ معجزات اور غیبی مدد کے بارے میں شکوک میں مبتلا رہتے ہیں، انہیں غزو بدر کی تفصیلات کو غور سے پڑھنا چاہئیں اور ان پر تدبر کرنا چاہئے۔ مختصراً یہ کہ بدر کی فتح نے اسلامی حکومت کی بنیاد رکھ دی اور پھر اس کے بعد اسلام کرۂ ارض پر اس قدر تیزی سے پھیلا کہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔



.
تازہ ترین