• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ شاہکار آگیا ہے جس کا انتظار تھا یعنی بجٹ آگیا ہے۔ سب سے زیادہ خوشی کی خبر یہ ہے کہ صدر پاکستان کی تنخواہ میں چھ لاکھ روپے کا اضافہ کیا گیا ہے ۔جن کو پہلے صرف ماہانہ دس لاکھ روپے ملتے تھے ۔حسبِ ِروایت آٹا، دال، چاول ،دودھ ،مٹی کا تیل اور چینی وغیرہ تومہنگی ہونی تھیں سو ہوگئی ہیں مگر جوتے بھی مہنگے کردئیے گئے شاید ان کا غلط استعمال زیادہ ہونے لگا تھا۔بڑے بڑے لوگ ان سے سرفراز ہونے لگے تھے۔کپڑے بھی مہنگے کر دئیے گئے۔ سگریٹ کے ساتھ پان پر بھی ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے ۔بیڑی بھی مہنگی کر دی گئی ۔ظالمو غریب آدمی کو چین سے سگریٹ کا کش بھی نہ لگانے دینا۔سیمنٹ اور سریا بھی مہنگے ہوگئے ہیں البتہ ایلومینیم سستا کردیا گیاہے۔ ایلومینیم سے گھر وں کی تعمیر کا تجربہ کیا جاسکتا ہے ۔نوجوانوں کیلئے اچھی خبر یہ ہے کہ اسمارٹ موبائل فون سستے کر دئیے ہیں۔انہیں دھڑکتے دلوں کے بیچ رابطے بڑھانے میں حکومت کے کردار کی خصوصی تعریف کرنی چاہئے ۔کاروں کے ساتھ موبائل آئل بھی سستا کردیا گیا ہے تاکہ اُن کے انجنوںکی صحت بہتر رہے ۔
خیریہ بجٹ بھی ویسا ہی ہے جیسا ہر سال تشریف لاتا ہے ۔وہی غیر منصفانہ وسائل کی تقسیم سے لبریز آنکھیں۔ وہی مہنگائی کے جنات جیسا چہرہ ۔تھوڑا بہت فرق ضرور ہے ۔ اور وہ لوگوں کو مطمئن کرنے کیلئے ضروری بھی ہوتا ہے کہ کبھی کارخانہ داروں۔ تجارت کاروں اور زمینداروں پر جو نوازشات کی جاتی ہیں وہ ننانوے فیصد کردی جاتی ہیں ۔تاکہ فرق واضح رہے ۔گزشتہ سال پینتالیس کھرب کا بجٹ پیش کیا گیا تھا اس سال اُس میں ڈھائی سو ارب اور شامل کر دئیے گئے ہیں جو ایم این ایز کو دئیے جائیں گے ۔آخر انہوں نے اگلے سال پھر انتخابات پر بھی اخراجات اٹھانے ہیں ۔انتخاب بہت مہنگا ہوگیا۔اب تو یہ چھوٹے موٹے پیسے والے کا کام بھی نہیں رہا۔پچھلے سال بجٹ بارہ سو پچاس ارب خسارے میں تھا اس سال آمدن اور اخراجات کے حساب سے تقریباً پندرہ کھرب خسارے کا بجٹ ہے ۔یہ خسارے کا بجٹ بھی کیا دلچسپ چیز ہے ۔یہ اخراجات کے تخمینہ میں وہ رقم ہوتی ہے جو آمدن کے حساب کتاب میںکہیں سے آتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔یعنی یہ طے کیا ہوا ہوتا ہے کہ اس سال یہ رقم کہیں سے ادھار لینی ہے ۔گزشتہ سال اس ادھار کیلئے موٹر وے گروی رکھی تھی ۔اس سال بھی کوئی نہ کوئی چیز گروی رکھ ہی دیں گے ۔آخر چیزیں ہوتی کس کام کیلئے ہیں ۔ماضی کے تمام بجٹ پر اپوزیشن کے بیانات سے یہی لگتا ہے کہ آج تک کسی بجٹ سے عوام کو فائدہ نہیں ہوا۔ سارے بجٹ عوام دشمن ہی آئے ہیں ۔ویسے ایک سچی بات بتائوں۔ کان میری طرف کیجئے ۔’’عوام کی حالت دیکھ کربھی ایسا ہی لگتا ہے۔پاکستانی حکومتیں بجٹ لوگوںکیلئے نہیں اپنے لئے بناتی ہیں ‘‘۔۔پچھلے سال دفاعی بجٹ آٹھ سو ساٹھ ارب روپے کا تھا اس سال دفاعی بجٹ نو سو بیس ارب کا ہے ۔اُس میں صرف ساٹھ ارب کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ میرے خیال میں تو یہ اضافہ بہت کم ہے۔کیونکہ کسی وقت بھی جنگ شروع ہوسکتی ہے ۔آخر پانامہ کا فیصلہ آنے والا ہے ۔بجٹ کےبارے میں کہیں وسعت اللہ خان نے لکھا تھا ’’میں نے کوئی ایسا بجٹ نہیں دیکھا جس سے عوام کے سب طبقات مطمئن ہو سکیں۔ ایسا ممکن ہو سکتا ہے اگر بجٹ سنگدل ٹیکنو کریٹس اور بیورو کریٹس کی بجائے گھر کا خرچہ چلانے والی کسی ماں سے بنوایا جائے۔ماں کو چاہے آپ پانچ ہزار روپے ماہانہ دے دیں یا پچاس ہزار۔ وہ ایسا بجٹ بناتی ہے کہ گھر کا کوئی فرد ناخوش نہیں ہوتا۔ یہ گھریلو عورت جو نہ تو اخبار پڑھتی ہے اور نہ ہی اس نے کبھی اسٹنفورڈ یا ہارورڈ کا نام سنا ہوتا ہے اور نہ ہی یہ ایم بی اے کا مطلب بتا سکتی ہے۔ آخر کیسے سال میں بارہ بجٹ بنا لیتی ہے اور شادی غمی کے لیے کچھ نہ کچھ بچا بھی لیتی ہے۔وجہ صرف ایک ہے، ماں کی نیت میں فتور نہیں ہوتا۔‘‘میرا خیال ہے اپنے اسحاق ڈار کو کسی وقت ان کے مشورے پر عمل کر کے دیکھنا چاہئے ۔ویسے توقع تونہیں کہ انہیں پھر کبھی پاکستان کا بجٹ بنانے کا موقع مل سکے گا مگر یہ پاکستان ہے یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔پاکستان میں صرف آٹھ نو لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں جب کہ کم از کم پچاس لاکھ لوگوں کو ٹیکس دینا چاہئے ۔باقی لوگوں سے حکومت ٹیکس وصول کرنے میں کیوں ناکام ہے کہ حکومت کوا ن کا پتہ نہیں چل رہا ۔یہاں میں کہوں حکومت کو ۔ان کا پتہ کرنا کونسا مشکل ہے۔ بجلی کے کمرشل میٹر اور ان کے بل دیکھ کر آسانی سےمعلوم ہوسکتا ہے کہ اس بزنس کی کیا پوزیشن ہے ۔اسے کتنا ٹیکس ادا کرنا چاہئے۔ مگر حکمران چالیس لاکھ لوگوں کو کیسے ناراض کر سکتے ہیں۔ یہ جمہوریت ہے بھئی جمہوریت ۔اور جمہوریت اپنے ووٹرز کو راضی رکھنے کا نام ہے ۔ناراض کرنے کا نہیں ۔
بجلی کا بھی اس بجٹ میں ذکر ِ خیرہوا ہے ۔موصوفہ بہت مشہور ہوگئی ہے ۔ہر گلی کوچے میں ہر گھر ہر وقت اسی کی باتیں ہی ہوتی ہیں ۔اسحاق ڈار کے فرمان کے مطابق تواگلے سال لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی۔شاید کچھ اور ہوگی۔ بجلی کیلئے پہلی چیز تو اس کا ہونا ہے مگر بزنسز کیلئے اس کے ہونے سے زیادہ اہم بات اس کا سستا ہونا ہے۔ کیونکہ اگر بجلی مہنگی ہوگی تو کوئی کارخانہ بھی اپنی پروٖڈکشن کے ریٹ دنیا کے مقابلے پر نہیں لا سکتا ۔یعنی صنعتی شعبے میں مہنگی بجلی کی فراہمی بھی پاکستان کی ایکسپورٹ میں کوئی بہتری نہیں لا سکتی ہے اور ضرورت اس امر کی ہےکہ پاکستانی ایکسپورٹ میں اضافہ ہو۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس سال ایکسپورٹ پچیس ارب سے بیس ارب پر آگئی ہے۔ دنیا میں معاشی استحکام کیلئے ضروری سمجھا جاتا ہے کہ امپورٹ میں کمی واقع ہو مگر اپنے وزیر خزانہ حیرت انگیز شخصیت ہیں وہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی امپورٹ کا بھی کریڈٹ لے رہے تھے ۔امپورٹ کا کریڈٹ صرف اسی صور ت میں لیا جا سکتا ہے جب بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کررہے ہوں اور سرمایہ کاری کی یہ حالت ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میںتیس سال میں سب کم سرمایہ کاری کی شرح رہی ہے۔ پاکستان جو ایک زرعی ملک ہے وہ سبزیاں تک امپورٹ کررہا ہے ۔امریکہ جیسا امیر ترین ملک بھی اپنے ملک میں کھانے پینے کی کوئی چیز کوئی پھل کوئی سبزی کوئی اناج کچھ بھی امپورٹ نہیں ہونے دیتا۔بہر حال بجٹ کی تعریف ضروری تھی سو کردی ہے ۔


.
تازہ ترین