• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سعودی عرب کے شہر ریاض میں منعقد ہونے والی امریکہ عرب اسلامی سربراہی کانفرنس میں پاکستان اور پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ جو کچھ ہوا ، اس پر ہم ملک کے وقار کے لئے خاموش تو رہ سکتے ہیں لیکن دنیا کا منہ بند نہیں کر سکتے اور نہ ہی حقائق کو چھپایا جا سکتا ہے ۔
ریاض اسلامی سربراہی کانفرنس پاکستان کے لئے ایک ایسا موقع تھا ، جس میں وہ اپنی اس سرمایہ کاری کا نقد منافع حاصل کر سکتا تھا ، جو اس نے سفارت کاری کے شعبہ میں کی تھی ۔ پاکستان نہ صرف امریکہ کا قدیم اتحادی اور سعودی عرب کا قابل اعتماد دوست ہے بلکہ وہ سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد کا بھی حصہ ہے ۔ اس فوجی اتحاد کی کمان پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے پاس ہے ۔ ریاض کانفرنس ایک ایسا موقع تھا ، جس کے لئے پاکستان طویل عرصے سے انتظار کر رہا تھا ۔ امریکہ اور سعودی عرب دونوں کی طرف سے پاکستان کی خدمات کے اعتراف کا وقت تھا اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار کو اجاگر کرنے کے لئے ایک غیر معمولی پلیٹ فارم تھا ۔ اس کانفرنس میں پاکستان کو توجہ کا مرکز ہونا چاہئے تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ اسی امید کے ساتھ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سعودی عرب روانہ ہوئے تھے ۔ یہ بھی خبریں شائع ہوئی ہیں کہ وہ دوران پرواز اس تقریر کی ریہرسل کرتے رہے ، جو انہوں نے امریکہ عرب اسلامی کانفرنس میں کرنا تھی ۔ اس کانفرنس میں امریکہ کے علاوہ 54 اسلامی ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت یا اعلیٰ سطح کے نمائندے موجود تھے ۔ وزیر اعظم نواز شریف نہ صرف لکھی ہوئی تقریر جہاز میں بار بار پڑھتے رہے بلکہ انداز بیان کے لئے بھی پریکٹس کرتے رہے ۔ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور قربانیوں کا صلہ ملنے والا تھا کیونکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ جنگ لڑی ہے اور دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے ۔ ’’گلوبل ٹیررازم انڈیکس ‘‘ میں پاکستان ان ملکوں میں چوتھے نمبر پر ہے ، جو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کانفرنس میں شریک ہوئے تو انہیں خطاب کے لئے بلایا ہی نہیں گیا ۔ جنرل راحیل شریف کو بھی اس کانفرنس سے خطاب کرنے کا موقع نہیں ملا ، جو اتحادی افواج کے کمانڈر ان چیف ہیں ۔
اس سے بڑا المیہ پاکستان کے لئے اور کیا ہو سکتا ہے۔ نہ صرف وزیر اعظم پاکستان کو تقریر کے لئے نہیں بلایا گیا بلکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب نے پاکستان کی توقعات پر مزید پانی پھیر دیا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں یہ تو کہہ دیا کہ بھارت دہشت گردی سے متاثر ہونے والے ملکوں میں شامل ہے لیکن انہوں نے پاکستان کا نام لینا بھی گوارا نہیں کیا ۔ امریکی صدر کی اس بات سے کچھ دن قبل عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ آیا ، جس میں عدالت کی طرف سے پاکستان سے کہا گیا کہ وہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر عمل درآمد اس وقت تک روک دے ، جب تک عالمی عدالت انصاف اس معاملے کا حتمی فیصلہ نہ کرے ۔ امریکی صدر کی اس بات سے بین السطور بھارتی موقف کی بھی تائید ہو گئی کہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان مبینہ طور پر دہشت گردی کی کارروائیاں کرا رہا ہے ۔ امریکی صدر نے بھارت کو جنوبی ایشیا میں دہشت گردی سے متاثرہ واحد ملک قرار دیا اور شعوری یا لاشعوری طور پر بھارتی بیانیہ اختیار کیا ۔ امریکی صدر نے اپنے اس بیان میں بالواسطہ طور پر پاکستان کے اس دعوے کو بھی مسترد کر دیا کہ بھارت بلوچستان اور کراچی سمیت پاکستان کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کرا رہا ہے ۔
صرف یہی نہیں ۔ رپورٹس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات بھی نہیں کی حالانکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کانفرنس میں شریک دیگر ممالک کے رہنماؤں سے نہ صرف ملاقاتیں کیں بلکہ ان ملاقاتوں کی خبریں بھی شائع کرائی گئیں ۔ اس کانفرنس کو ’’ امریکہ عرب اسلامی سربراہی کانفرنس ‘‘ کا نام دیا گیا ۔ اس میں امریکی صدر کی شرکت کی وجہ سے امریکہ کا لفظ شامل کیا گیا جبکہ پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت وسطی ایشیا اور افریقی اسلامی ممالک کی شرکت کی وجہ سے اسلامی کا لفظ استعمال کیا گیا ۔ زیادہ تر ممالک کا تعلق عرب دنیا سے تھا ۔ پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں اسلام کو ہمیشہ ایک فیکٹر کے طور پر استعمال کیا ہے لیکن ریاض کانفرنس سے یہ محسوس ہوا کہ یہ کانفرنس صرف امریکہ اور عرب خصوصاً خلیجی ممالک کی تھی ۔ کہیں بھی پاکستان کے کردار کو نہیں سراہا گیا ۔ پاکستان کے لئے کانفرنس میں ایک اور مشکل اس وقت پیدا ہوئی ، جب امریکہ اور سعودی عرب نے ایران کے خلاف اس کانفرنس کو ایک محاذ کی شکل دے دی اور انہوں نے ایران پر الزام لگایا کہ وہ فرقہ واریت اور دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کانفرنس میں عالم اسلام کی ’’ فرقہ واریت ‘‘ کی بنیاد پر تقسیم کو تسلیم کر لیا گیا ۔ پاکستان ہمیشہ یہ موقف اختیار کرتا رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں قائم کیا جانے والا فوجی اتحاد کسی فرقے کے خلاف نہیں ہے ۔ کانفرنس میں پاکستان کے اس موقف کی بھی تردید ہو گئی ۔ کانفرنس میں نہ کسی نے پاکستان کی بات سنی اور نہ ہی پاکستان اپنی کوئی بات کہہ سکا بلکہ وزیر اعظم نواز شریف جب سعودی عرب سے واپس روانگی کے لئے طیارے میں بیٹھے تو دنیا یہ تاثر قائم کر چکی تھی کہ پاکستان بھی ایران کے خلاف بننے والے محاذ کا حصہ ہے ۔ پاکستان کی مشرقی سرحد پر بھارت اور مغربی سرحد پر افغانستان پاکستان کے مخالف ہیں ۔ مغربی سرحد پر ایران ایک ایسا ملک تھا ، جسے پاکستان کا دوست قرار دیا جاتا تھا ۔ اب مشرقی اور مغربی سرحدوں پر پاکستان کا کوئی دوست نہیں رہا یا کوئی دوست سمجھا نہیں جا رہا ۔ریاض سے واپسی پر یہ محسوس ہوا کہ پاکستان امریکہ ، عرب اور اسلامی دنیا کا اہم ملک نہیں ہے بلکہ سیکورٹی سروسز فراہم کرنے والا ایک ملک ہے ۔ ریاض کانفرنس سے بس یہی ملا ہے ۔


.
تازہ ترین