• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مضبوط دفاع کسی بھی ملک کی ترقی کی ضمانت ہوتا ہے۔دفاعی طور پر کمزور ممالک کی معیشت کبھی بھی مضبوط نہیں ہوسکتی۔جنوبی ایشیاکی ہی بات کریں تو بھارت کی مثال سب کے سامنے ہے۔دنیا کی بڑی معاشی طاقت بننے سے پہلے بھارت نے جنوبی ایشیا کا تھانیدار بننے کا خواب دیکھنا شروع کیا۔ عددی اعتبار سے دنیا کی تیسری بڑی زمینی فوج، چوتھی بڑی فضائیہ اور پانچویں بڑی بحریہ رکھنے والا بھارت 1974 میں ہی ایٹمی تجربہ کر کے خطّے میں ایٹمی اسلحہ کی دوڑ شروع کر چکا تھا۔ مجبوراً پاکستان کو بھی اپنے دفاع کے لئے اس دوڑ میں شامل ہونا پڑا۔بھارت اپنی روایتی مکاری کی وجہ سے پاکستان کو پہلے ہی دولخت کرچکا تھا۔ ایٹمی قوت بن جانے کے بعد خطہ میں طاقت کا توازن بری طرح بگڑ گیا ۔ اس لئے بھارتی ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو نہ صرف جنوبی ایشیابلکہ عالم اسلام کی ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کیا۔’’اگر ہندوستان ایٹم بم بناتا ہے تو ہم گھاس کھائیں گے، بھوکے رہ لیں گے لیکن اپنا ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔‘‘یہ تاریخی الفاظ اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1965ء میں مانچسٹر گارجین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہے۔ اگرچہ قیام پاکستان کے فوراً بعد دوسرے مسائل کے پیش نظر کسی کو اس طرف دھیان دینے کا موقع نہ ملا، لیکن بھارت 1954ء سے ہی ’’ہومی بھابھا‘‘ کی سربراہی میں اپنا نیوکلیائی تحقیقی پروگرام شروع کرچکا تھا۔ 1954ء میں اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم، مشہور زمانہ ایٹمی سائنسدان نیلز بوہر سے ملنے کوپن ہیگن بھی گئے۔بہرحال 1974کے بعد مئی1998میں بھارت کی طرف سے دوبارہ ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد پاکستان کی طرف سے جواب دینا ناگزیر تھا۔کیونکہ بھارت کے مئی 1998 میںہونے والے ایٹمی دھماکوں کے بعدپاکستان کے لیے دھمکی آمیز لہجے کا استعمال شروع ہو گیا تھا۔ پاکستان اس وقت تک ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکا تھا، لیکن اس کا واضح طور پر اعلان نہیں کیا تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود پاکستان کو ایک تسلیم شدہ ایٹمی طاقت منوانے کا یہ سنہری موقع ضائع نہیں ہونے دیا اور 28 مئی کو چاغی میں 5 دھماکے کر کے دشمن کو سخت جواب دیا گیا اور شاید منتخب وزیراعظم کو 12اکتوبر 1999کو اسی کا جواب دیا گیا۔بہر حال تاریخ بتاتی ہے کہ 27مئی کو امریکی صدر بل کلنٹن نے وزیراعظم نواز شریف کو نصف گھنٹے پر مشتمل کال کی، جس میں ان سے ایٹمی دھماکہ نہ کرنے کی گزارش کرتے ہوئے اس کے بدلے پاکستان کو بیش بہا امداد دینے کا وعدہ کیا۔ لیکن اس سے بہت پہلے ہی 28 مئی 1998ء کی سہ پہر تین بجے ایٹمی دھماکہ کرنے کا وقت طے کیا جاچکا تھا۔
اگر19سال پیچھے جاکر آج کے دن کو دیکھا جائے تو چاغی میں اس روز موسم صاف اور خوشگوار تھا۔ گراؤنڈ زیرو (ایٹمی دھماکے والی جگہ) سے متعلقہ لوگوں کے سوا تمام افراد کو ہٹالیا گیا تھا۔ 2 بج کر 30 منٹ پر پی اے ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر اشفاق احمد، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جاوید ارشد مرزا اور فرخ نسیم بھی وہاں موجود تھے۔ تین بجے تک ساری کلیئرنس دی جاچکی تھی۔ پوسٹ پر موجود بیس افراد میں سے محمد ارشد کو، جنہوں نے ’’ٹرگرنگ مشین‘‘ ڈیزائن کی تھی، بٹن دبانے کی ذمہ داری دی گئی۔ تین بج کر سولہ منٹ پر محمد ارشد نے جب ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا بلند کرتے ہوئے بٹن دبایا تو وہ گمنامی سے نکل کر ہمیشہ کیلئے تاریخ میں امر ہوگئے۔ بٹن دباتے ہی سارا کام کمپیوٹر نے سنبھال لیا۔ اب ساری نگاہیں دس کلومیٹر دور پہاڑ پر جمی ہوئی تھیں۔ دل سہمے ہوئے لیکن دھڑکنیں رک گئی تھیں۔ بٹن دبانے سے لے کر پہاڑ میں دھماکہ ہونے تک صرف تیس سیکنڈ کا وقفہ تھا لیکن وہ تیس سیکنڈ، باقی ساری زندگی سے طویل تھے۔ یہ بیس سال پر مشتمل سفر کی آخری منزل تھی۔ جونہی پہاڑ سے دھوئیں اور گرد کے بادل اٹھے، آبزرویشن پوسٹ نے بھی جنبش کی۔ پہاڑ کا رنگ تبدیل ہوا اور ٹیم کے ارکان نے اپنی جبینیں، سجدہ شکر بجالاتے ہوئے خاک بوس کردیں۔ اب وہ لمحہ آن پہنچا تھا جب پاکستان، دنیا کی بڑی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرسکتا تھا۔
اسی روز سہ پہر تین بجے میاں نواز شریف نے قوم سے اپنے خطاب کا آغاز کیا: ’’آج ہم نے پانچ کامیاب نیوکلیائی دھماکے کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے سنہرا باب ہے۔‘‘ انہوں نے اس پر پوری قوم، پاکستانی سائنسدانوں اور بالخصوص پی اے ای سی اور کے آرایل کے سائنسدانوں کو خراج تحسین پیش کیا۔آج چاغی میں ہونے والے دھماکے کو 19سال ہوچکے ہیں۔پاکستان تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہا ہے۔لیکن اگر نوازشریف 19سال قبل بل کلنٹن کی دوستی کو ملکی سالمیت پر ترجیح دیتے تو شاید آج کا پاکستان سی پیک،آپریشن ضرب عضب اور آپریشن راہ راست کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوتا۔ہمسایہ ممالک کو اگر ایٹمی طاقت کا خوف نہ ہو تو ہمارے تمام بالا منصوبے لمحوں میں ختم ہوسکتے ہیں۔مضبوط ملکی دفاع کے سبب ہی آج پاکستان کی معیشت تیزی سے بلندی کی طرف جارہی ہے۔دی اکانومسٹ ،فنانشل ٹائمز سمیت دنیا کے مستند جریدے اس کا اعتراف کررہے ہیں۔آج جب نوازشریف مری کے پہاڑوں میں بھارتی سرمایہ دار جندل سے ملاقات کرتے ہیں اور اس پر ناقدین انگلی اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ نوازشریف ملک کے لئے سیکورٹی رسک بن چکے ہیں۔یہ خاکسار صرف اتنا جانتا ہے کہ جس شخص نے 20سال قبل ملکی دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے اپنا اقتدار قربان کردیا ،کیا آج وہ پاکستان کو کمزور کرے گا۔مجھے رفیق تارڑ صاحب نے خود بتایا تھا کہ نوازشریف نے پاکستان کی خاطر بل کلنٹن کی دوستی کو ٹھوکر مار دی تھی،اور جب بل کلنٹن 99کے مارشل لاکے بعد پاکستان آئے تو انہوں نے باقاعدہ اس بات کا تذکرہ کیا کہ اس قوم کے لئے نوازشریف نے اتنا بڑا فیصلہ لیا ،جس نے آج اسے سلاخوں کے پیچھے دھکیلا ہوا ہے۔مشرف جیسے بدترین مخالف بھی نوازشریف کے بارے میں کہتے ہیں کہ نوازشریف سے ہر طرح کا اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر نوازشریف کی حب الوطنی پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم بھارت سے دشمنی کو حب الوطنی سے تشریح کرتے ہیں۔توہین رسالت اور غداری سب سے آسان وار بن چکے ہیں۔نوازشریف کے پاکستان سے مخلص ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ ان کی جماعت میں چوہدری نثار بھی موجود ہیں اور پرویز رشید او ر رانا ثنا اللہ جیسے لوگ بھی موجود ہیں۔خداراکسی سے نظریاتی اختلاف کو حب الوطنی سے مت جوڑیں۔آج خودمختار پاکستان مضبوط دفاع کی وجہ سے ہی ہے۔جس کا کریڈٹ بہرحال وزیراعظم پاکستان کو جاتا ہے۔لیکن ایک شکوہ ضرور ہے کہ آج ہم نے 920ارب سے زائد رقم دفاعی بجٹ کے لئے مختص کی ہے۔بہت اچھی بات ہے،لیکن کیا خوب ہوتا اگر صحت او ر تعلیم کے لئے اس رقم کا نصف ہی رکھ دیا جاتا۔کیونکہ ترقی پذیر ممالک کا ایٹم بم تعلیم اور صحت ہی ہوتے ہیں ۔عظیم جاپان کی مثال دنیا کے سامنے ہے۔



.
تازہ ترین