• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماضی میں ہمارے سابق وزیر اعظم کی زیرصدارت بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے لئے ہمارے سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ اور وزیر بجلی نوید قمر نے ایک انوکھا فیصلہ کیاتھا کہ پوری قوم 2دن چھٹی کرے جن میں سرکاری ملازمین جو ایک چھٹی کررہے تھے ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ان کی دلی مراد پوری ہوئی ۔مگر عوام ،تاجراور صنعتکاروں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔انہوں نے بیک زباں ناراضی کا اظہار کرکے مسترد کردیامگر شاباش ہے وزیراعظم کی کابینہ کو جس میں اکثر یتی جماعتیں شامل تھیں فوراََ اس لال بھجکڑ فیصلے کو نہ صرف منظور کرلیا بلکہ اس کو 15اکتوبر 2011ء سے نافذ بھی کردیا۔اس پر مزید اسلام آباد اور فیصل آباد کے بجلی کے پیداواری یونٹوں کو بھی کراچی الیکٹرک سپلائی کا رپوریشن کی طرح اونے پونے بیچ کر جان چھڑانے کا بھی عندیہ دے ڈالا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے فیصلے کرنے سے قبل تمام صوبوں کے نمائندوں سے مشاورت کی گئی ،کیا تمام صنعتی اداروں کے نمائندوں سے مشاورت کی گئی ؟۔ بالکل ماضی کی طرح سردیوں میں ایک گھنٹہ گھڑیاں آگے کرنے کا انوکھا تجربہ کرڈالا اور وہ بھی ناکام رہا۔اس میں بھی مشاورت نہیں تھی۔ ہم آخر صنعتکاروں ،تاجروں کو کیوں نظرانداز کرکے صرف بیورو کریٹ حضرات اور عوامی نمائندوں جن میں اکثریت جاگیرداروں ،وڈیروںاور چوہدریوں کی ہوتی ہے ان کو صنعتی ابجدسے بھی ناواقفیت ہوتی ہے۔جن میں صرف اس معاملے میں انگوٹھا چھاپ اور وزیراعظم وصدر صاحبان کی ہاں میں ہاں ملانے کی صلاحیت ہوتی ہے جس کی وجہ سے 69سال گزرنے کے باوجو د ہم کوئی معاشی فیصلہ نہیں کرسکے ۔دنیا نے بجلی کے بحرانوں پر قابو پاکر اپنی معیشت کو چار چاند لگادیئے جس کی تازہ ترین مثال ہمارا بہترین دوست چین ہے ۔جس نے 15سالوں میں نہ صرف بجلی پیداکی بلکہ بجلی کو بیچنے کا عمل بھی شروع کردیا ۔غیر ملکی کمپنی نےکوئلے کی کانوں سے کوئلہ نکالنے کا ٹھیکہ لیا مگر ہم اس کمپنی کے افراد کو سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکام ہوئے ۔تو اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بھی ختم کرکے وہ لوگ واپس جارہے ہیں۔
اب آئیے حقیقت کی طرف پاکستان دنیا کا خوش نصیب ترین ملک ہے جس میں خود بجلی پیداکرنے کی بے پناہ قدرتی صلاحیتیں ہیں ۔او ل اس ملک پر سورج سے پڑنے والی شعاعیں بقول سائنسدانوں کے سب سے قریب اور تیز ہیں جنہیں ہم سولر سسٹم سے قابو کرسکتے ہیں ۔دوئم ہمارے دونوں سمندر جن سے ہم بجلی کے علاوہ دیگر کام بھی لے کر میٹھا پانی ،نمک اور کیمیکل پیدا کرسکتے ہیں ۔اس کی طرف ہماری کوئی توجہ نہیں ہے۔جبکہ عرب ممالک اس سے فائدہ اٹھاکر اپنے ریگستانوں کو ہرابھراکرتےہوئے اجناس ،سبزیاں ،پھل پیدا کرکے کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں ۔سوئم ہمارے سائنسدان باربار ہمارے کوئلے کے خزانوں کی طرف توجہ دلاچکے ہیں ۔جو 100سال کے لئے بھی کافی ہیں مگر اس حکومت کو بھی آج 5سال ہونے کو ہیں کسی کو کوئلہ نکالنے کی توفیق نہیں ہوئی جبکہ قیمتی زر مبادلہ خرچ کرکے کوئلہ امپورٹ کیا جارہا ہے۔چوتھی خوش قسمتی ہمارے سمندری ساحل ہیں جس سے ہم جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بجلی پیدا کرسکتے ہیں ۔پانچوں دریائوں پر ڈیم بناکر اپنے اپنے علاقوں کو بجلی فراہم کرسکتے ہیں ۔ہمارے سیاست دان مورچے بناکر بیٹھے ہیں ۔ایک ایک وزارت کے لئے لڑتے ہیں مگر پاکستان کی سا لمیت کی ان کو پروا نہیں ہے ۔معیشت بھاڑ میں جائے ،بجلی کی لوڈ شیڈنگ کاعذاب قبول مگر ڈیم نامنظور ۔بھارت نے ایک طرف ہمارا پانی روک کر 100سے زیادہ ڈیم بنالیے ہیں اور جب بارشیں زیادہ ہوجائیں انہی ڈیموں سے فاضل پانی یک دم چھوڑ کر ان کا رخ ہماری طرف کردیتا ہے جس سے 4سال سے ہماری زمینیں سیلاب زدہ ہوچکی ہیں۔
اب میں آپ کو بجلی کے بحران کا اصل تجزیہ پیش کرتا ہوں ۔بقول وزیر پیداوار بجلی ہم 14500میگاواٹ بجلی پیدا کررہے ہیں جبکہ ہماری ضرورت 19000میگاواٹ سے زائد ہیں ۔گویا ہم صرف 4500میگاواٹ بجلی کم پیدا کررہے ہیں گویا صرف 20فیصد بجلی کی کمی ہے۔ تو پھر 12بارہ گھنٹے بجلی کیوں جارہی ہے باقی 8گھنٹے کی بجلی کہاں جاتی ہے؟۔یہ صرف الفاظ کا ہیر پھیر ہے جو ایک وزیر بجلی سے دوسرے وزیر بجلی اور ایک وزیرخزانہ سے دوسرے وزیر خزانہ تک 6سال سے جاری ہے ۔ہمارے وزیراعظم نواز شریف نے کھلے عام میڈیا پر اعلان کیا کہ ایک سال میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کردی جائیگی ۔اُس وقت اوسطاًپورےدن میں 4گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی تھی ۔جو آج 8گھنٹے تک پہنچ چکی ہے۔
اور بعض علاقوں میں توکئی دن تک بجلی نہیں ہوتی ،لوڈشیڈنگ تو دور کی بات ہے ۔عوام کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ہمارے سب سے بڑے بجلی کے صارفین اپنی ضرورت کی بجلی اپنے کارخانوں میں جنریٹروں سے پوری کررہے ہیں۔گھروں ،دفتروںاوردکانوں میں چھوٹے جنریٹر بجلی کی ضرورت پوری کرتے ہیں جس کی وجہ سے ڈیزل ،پٹرول اور گیس کا اضافی خرچہ عوام خود اٹھاکر اس عذاب کو جھیل رہے ہیں ۔اس لوڈشیڈنگ کی آڑ میں ڈیزل ،تیل اور پٹرول جو دنیا میں آدھے داموں پر دستیاب ہیں ۔ہمارے عوام سے ہر ماہ اضافہ کرکے بجٹ کی رقم کو پورا کیاجاتا ہے ۔لوڈشیڈنگ کی وجہ سے کئی کئی دن کاروبار بند ہوتا ہے وہ بجلی کہاں جاتی ہے ۔جب تک بجلی کی پیداوار کی طرف جس کی راقم نے نشاندہی کی ہے حکومت اس طرف توجہ نہیں دیتی اور پورے ملک میں ایک چھٹی یا دو چھٹی کے نظام کے بجائے 7دنوں پر مشتمل چھٹیوں کا نظام رائج نہیں کرتی ،لوڈشیڈنگ پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ یعنی ایک شہر کو 7دنوں میں تقسیم کیاجائے اور علاقہ وار چھٹی کی جائے جیساکہ بھارت نے یہ طریقہ رائج کرکے تجربہ کیا تھا ۔آج وہ کامیابی سے جاری ہے مگر پھر بھی اضافی بجلی پیداکرنے کے تمام راستے اپنانے سے ہم اس سے نجات حاصل کرسکیں گے۔ورنہ 4سال میں ہماری معیشت کو بٹھادیا گیا ہے اب معیشت کو لٹا دیاجائیگا اور آخر کا ر سُلا کرہی جان چھوٹے گی ۔بقول ہمارے وزیر خزانہ 18ویں ترمیم کے بعد تما م صوبے اپنی اپنی بجلی خود کیوں نہیں پیدا کرتے تو ایک صوبے والوں کو دوسرے صوبے والوں پر اعتبار ہی کب ہے ۔پاکستان تو دور کی بات 100سال تک بھی ہم بجلی کا بحران ختم نہیں کرسکیں گے اور یوں ہی لڑتے رہیںگے۔آج ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ ساہیوال میں1320میگاواٹ بجلی کا پلانٹ مکمل کرلیا گیا ہے۔ وہ بجلی کس کو ملے گی؟ سب سے بڑے صنعتی شہر کراچی کو پھر نظرانداز کرنے کی غلطی دہرائی گئی ہے۔ پہلے اس کو کچرا گھر میں تبدیل کیا گیا۔ اب اس جگمگاتے شہر کو ویران کرنے کا منصوبہ ہے۔ جس ملک میں 2سمندر ہوں اُس سے فائدہ نہ اٹھانا کہاں کی عقلمندی ہے قوم کوجواب دیں؟



.
تازہ ترین