• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ اتوار اے این پی سندھ کے نام رہا۔ اس روز 21مئی2017ء کو پارٹی کے صوبائی سربراہ سینیٹر شاہی سید نے گزشتہ6 برس سے اے این پی پر لاگو غیر اعلانیہ پابندی توڑنے کا اعلان کیا تھا۔ پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان، جس کے لئے علالت کے باوجود پختونخوا سے کراچی آئے تھے۔ سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین بھی آپ کے ہم رکاب تھے۔ اے این پی جو سینیٹر شاہی سید کی قیادت میں کراچی کی دوسری بڑی موثر جماعت کہلائی جاتی تھی، گزشتہ چھ سات سال سے جیسے ’’ہے کہ نہیں ہے’’ کی صورتحال سے دوچار تھی۔ 2008ء کے انتخابات میں پختونخوا سمیت سندھ، بلوچستان میں اے این پی کی شاندار کامیابی کے بعد ایک لبرل و سیکولر جماعت کے کردار کو غیرموثر بنانے کے لئے ایک خونی کھیل کا آغاز کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سوات آپریشن کے بعد اے این پی طالبان کے نشانے پر آئی، ایسا ہرگز نہیں تھا۔ اسفندیار ولی خان پر چارسدہ ولی باغ میں خودکش حملہ اس وقت ہوا جب2008ء کے انتخابات میں کامیابی پر وہ کارکنوں سے مبارکباد وصول کر رہے تھے۔ ابھی تو حکومتوں کی تشکیل بھی نہیں ہوئی تھی، درحقیقت یہ کھیل ہی کوئی اور تھا۔ اگرچہ یہ کھیل ابھی بھی ختم نہیں ہوا لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کی ہویدا روشن علامتیں ایک نئی صبح کے امکانات کا اشارہ ضرور دیتی ہیں۔ جبر کا ایک طویل عرصہ ہے جس سے اے این پی شاید نکلنے لگی ہے یا پھر اس نے اب تنگ آمد بجنگ آمد کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اے این پی گزشتہ دور حکومت میں پیپلزپارٹی کی حلیف تھی لیکن یہی وہ دور تھا جب ان پر عرصہ حیات تنگ ہوا۔ پختونخوا میں بشیر احمد بلور، میاں افتخار حسین کے صاحبزادے سمیت اس جماعت کے منتخب اراکین سمیت کیا کیا گراں مایہ اصحاب و نوجوان شہید ہوئے۔ ظالموں نے یہی عمل کراچی میں بھی جاری رکھا۔ قائداعظم کا یہ شہر ان دنوں مسلح جتھوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ اس عالم میں اے این پی کے کیا کیا نظریاتی و فعال کارکن و رہنما بارود کی خوراک بنادئیے گئے۔ یہ درست ہے کہ اس دور میں پیپلزپارٹی اس قدر بے بس و لاچار ہو گئی تھی کہ صدر مملکت آصف زرداری ایوان صدر کی خواب گاہ میں بھی بندوق سرہانے رکھتے تھے لیکن سندھ میں بہت کچھ کرنے کی قوت رکھنے کے باوصف قائم علی شاہ حکومت کی قوت نافذہ ’’بوجوہ‘‘ جواب دے گئی تھی۔ جب حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے ایک جماعت عوام کے حقوق کا تحفظ تو دور کی بات ہے، اپنے قریبی ساتھیوں و کارکنوں کی زندگی تک کو تحفظ نہیں دے پاتی ہے تو عام اصول ہے کہ پھر ایسی حکومت سے باہر آیا جاتا ہے۔ تاریخ کا مضحکہ خیز مرحلہ مگر یہ بھی تھا کہ اے این پی سندھ میں ایک وزارت سے چمٹی ہوئی تھی۔ خیر قصور ان کا بھی نہیں تھا صحرا میں پیاسے کو پانی مل جائے پھر اِس نے اِدھر اُدھر کہاں دیکھنا!!
بہر صورت خدا خدا کرکے! گزشتہ اتوار کو اے این پی نے کراچی کی تاریخ کا ایک بڑا جلسہ منعقدکیا۔ سینیٹر شاہی سید کی طلسماتی کارکردگی کا یہ عالم تھا کہ ہفتہ و اتوار کی درمیانی رات شہر بھر میں میلے کا سا سماں تھا۔ تیز بخار کے باوجود شاہی سید، سیکرٹری جنرل یونس بونیری کے ہمراہ رات گئے مختلف علاقوں میں لگائے گئے کیمپوں کا دورہ کرتے رہے۔ ایئرپورٹ سے جلسہ گاہ تک طویل جلوس نے شہر کے ان تاریخی جلوسوں کی یاد دلا دی جس سے بڑے بڑے فرعون نما حکمرانوں کے ایوانوں میں لرزہ بپا ہوا کرتا تھا۔ عوامی سمندر نے جلسہ گاہ کو ڈھانپ لیا تھا جبکہ دور دور تک شاہراہوں پر عوامی بحرِ بے کراں اپنے قائد کی تقریر سننے کیلئے موجود تھا۔
یوں تو میڈیا نے اس جلسے کو وہ کوریج نہیں دی جو اس کا حق تھا، لیکن اس کے باوجود سیاست کے افق پر جو سچائیاں نمایاں ہوئیں وہ یہ ہیں کہ اے این پی آج بھی شہر کی دوسری بڑی موثر و منظم جماعت ہے۔ اس شو نے باور کرایا کہ شاہی سید پہلے سے بھی زیادہ کارکنوں میں مقبول اور ان کے ایک اشارے پر پورا شہر انگڑائی لیتے محو رقص ہو جاتا ہے۔ اس فقیدالمثال جلسے کے بعد ایسی تمام جماعتیں جو اے این پی کی کمزور ہوتی سیاسی پوزیشن پر نہال نہال تھیں، اب پریشاں پریشاں نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ مختصر یہ کہ اگر اس ردھم کو برقرار رکھا گیا اور وہ انہونی جو اسلام کے اس قلعے پاکستان میں ہوتے دیر نہیں لگتی، نہ ہوئی تو آئندہ انتخابات میں اے این پی کا سرخ پرچم بلند و بالا ہی نظر آئیگا ۔
سب سے حوصلہ افزا اور قابل تحسین واقعہ یہ ہوا کہ اس جلسے میں اے این پی کے قائد اسفندیار ولی خان نے قومی یکجہتی، ملکی سالمیت و امن اور پاکستانی عوام میں محبت کے فروغ کے ماسوا کچھ نہیں کہا۔گزشتہ چند سالوں میں اے این پی کے ہزاروں کارکن و رہنما بے قصور مارے گئے، کوئی اور جماعت اس طرح کے جبر کا شکار ہوتی اور اس کے قائد کے سامنے ہزارہا جذباتی کارکن موجود ہوتے تو نہ جانے وہ کیا کیا جذبات اُبھارتے، لیکن اسفندیار ولی خان نے کسی تلخی کا ذکر تک نہیں کیا۔ ایک پرامن و خوشحال نئی دنیا کے وہ آس بنے دکھائی دیئے۔ اپنے خطاب میں اس امر پر طمانیت کا اظہار کیا کہ حکومت و فوجی اسٹیبلشمنٹ آئین کی پاسداری کے لئے یک رائے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج، پولیس و عوام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ اے این پی وطن کی خاطر ماضی کی طرح کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔
یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ اگلے روزبرادر رانا گل آفریدی، فاروق بنگش، حیدرآباد کے اورنگزیب لالہ، سلطان مندوخیل، ترجمان عبدالمالک ، میاں شفیع الزماں کاکاخیل اور کریم اللہ یوسف زئی جیسے پرانے سیاسی’ گروئوں‘ کے پرمغز سوالات پر مبنی قائداے این پی سے ایک نشست بھی ہوئی۔ اس میں راقم بھی اپنے اُستاد میاں افتخار حسین کے ہمراہ موجود تھے۔ اگر خدائے بزرگ و برتر نے موقع نصیب کیا تو کسی کالم میںاس فکر انگیز نشست کے حوالے سے بھی آپ سے ہم کلام ہونگے ۔مختصر یہ کہ اسفندیار ولی کے خیالات محبت کا استعارہ اور ملک بھر کے عوام کو ایک لڑی میں پرونے کی خواہش سے لبریز تھے۔ اگر میڈیا اس جلسے سے انصاف کرتا تو یہ امر یقیناً قومی یکجہتی کے فروغ کا باعث ہوتا۔ جلسے میں بالخصوص اردو بولنے والے بھائیوں سے جس اپنائیت کا اظہار کیا گیا وہ بالخصوص لائق ستائش ہے۔ اس شہر کو نفرتوں نے عروس البلاد سے تاریکیوں کا شہر بنا کر رکھ دیا تھا۔ اے این پی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ سالہا سال دُکھ جھیلنے کے بعد جب وہ پھر میدان عمل میں آئی تو اس کا نقطہ آغاز پیامِ آشتی و محبت تھا…



.
تازہ ترین