• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے بہت پیارے دوست جاوید شاہین مرحوم نے ایک شعر میں بتایا تھا
تھام لیتا ہوں اگر گرنے لگے دیوار خواب
خواب کے اندر کہیں پر جاگتا رہتا ہوں میں
میرے ایک مہربان میڈیکل ڈاکٹر دوست محمود ناصر ملک کا شعر ہے؎
بہے جاتا ہے خوابوں کا جو دریا خواب کے اندر
اس نے آنکھ کھولی ہے دوبارہ خواب کے اندر
جیسے اب چاند راتوں میں مچھیرے گنگناتے ہیں
سمندر نے سنایا تھا وہ نغمہ خواب کے اندر
محمودناصر کی اس غزل کا ایک شعر احمد مشتاق اور بیلے روس کے شاعر میکسم تانک کے شعروں کی یاد دلاتا ہے۔ احمد مشتاق اور میکسم تانک کے شعروں میںCatharsis کا حسن بیان گیا ہے۔ احمد مشتاق کہتے ہیں کہ؎
چاند اسی گھر کے دریچے کے برابر آیا
دل مشتاق ٹھہر پھر وہی منظر آیا
میکسم تانک اپنے پڑوس کے عالمی جنگ کے دوران جل کر راکھ ہوجانے والے گھر کی مرمت کرنے والوں سے درخواست کرتے ہیں کہ اس گھر کے شیشے صاف کرتے وقت وہ چہرے بھی نہ دھو دینا جو یہاں سے جھانکا کرتے تھے۔ ڈاکٹر ناصر ملک کا شعر ہے کہ؎
نہ جانے کون سا چہرہ واں سے جھانکتا ہوگا
کھلا اک چھوڑ آیا تھا دریچہ خواب کے اندر
ہمارے دوست محیطاسماعیل بھی خوابوں کے گھروں میں جانے کے اندیشے یوں بیان کرتے ہیں کہ؎
جب بھی خوابوں کے گھر گیا چہرہ
کرچیوں میں بکھر گیا چہرہ
خوابوں کے گھروں میں جانے کے اندیشوں سے بخوبی آگاہ ہونے کے باوصف محیط اسماعیل اپنی شاعری میں ان خوابوں کے گھروں کا اکثر طواف کرتے رہتے ہیں۔ صرف محیط اسماعیل ہی نہیں تقریباً تمام شاعروں کا یہ مرغوب مشغلہ ہےکہ خوابوں کے گھروں اور خواب نگر کے دور سے لطف اندوز ہوتے رہیں اور اپنے چہروں کو کرچیوں میں بکھیرنے کی اذیت سے بھی لطف نچوڑنے کی کوشش جاری رکھیں۔



.
تازہ ترین