• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کلبھوشن یادیو:بھارت کااصل چہرہ تحریر:رحمٰن ملک

آج مجھے تاریخی اورموجودہ حقائق کی بنیاد پراپنےذاتی خیالات پرمبنی مضمون تحریرکرناپڑرہاہےکہ جس طرح پاکستان کو تنہائی کی طرف دھکیلا جا رہا ہےاس پرمیں متفکر ہوں کہ یہ تنہائی پاکستان کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ دنیا بھر میں رونما ہونیوالے تازہ ترین واقعات میں پاکستان کو دہشتگردی کیخلاف بھرپور کوششوں کے باوجود عالمی فورمز پر مسلسل نظر اندازکیا جا رہا ہے ۔ مجھے ڈونلڈ ٹرمپ کی سعودی عرب میں تقریر پر بھی مایوسی ہوئی جواس بات کابین ثبوت ہے کہ دہشتگردی کی بے شمار جارحانہ کارروائیوں کا بار ہا نشانہ بننےکی المناکی کےباوجود کیسے پاکستان سےمسلسل بےاعتنائی روارکھی جا رہی ہے،میرے خیال میں عالمی برادری باہمی ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے کیلئےکردار ادا کرنے میں نا کام ہوئی ہےتوہم بھی کئی ایسے ممالک سےقریبی خارجہ تعلقات قائم نہیں رکھ پائےجوکبھی پاکستان کےاچھے دوست ہوا کرتے تھے۔ایک بار پھر پاکستان کو عالمی عدالت انصاف کے فورم پراسی نام نہاد غیر جانبدارعالمی ادارےکی جانب سےکارنرکردیاگیا۔ شرم کامقام ہے کہ قانون کےیہ رکھوالےاپنےاختیارات بھارت جیسےمکروہ اورسنگدل ملک کی حمایت میں استعمال کر رہے ہیں،دوسری جانب کلبھوشن کےدہرےپاسپورٹ، شناخت اورکرتوتوں جوکہ اسکی خفیہ اور غیر قانونی سرگرمیوں کےواضح ترین شواہدہیں کی کوئی وضاحت پیش کرنےمیں ناکامی یاپھرشائدعدم دلچسپی کےباوجودبھارت اس کیس کوعالمی عدالت انصاف میں لے گیا۔ میرے خیال میں آئی سی جے کی جانب سےحکم امتناع اسکی حدودسے تجاوزہے اورمیرےلئےبہت پریشان کن ہےکیونکہ میں اسےکسی پاکستان مخالف گروپ کی جانب سےملک کونقصان پہنچانےکی سازش سمجھتاہوں۔ہم سب بخوبی جانتےہیں کہ راکاایجنٹ کلبھوشن یادیوجسے مارچ2016ءبلوچستان کے سرحدی علاقےسروان سےملک دشمن سرگرمیوں کےدوران پاکستانی قانون نافذکرنےوالےاداروں نےرنگےہاتھوں پکڑاجس کاواضح مقصدپاکستان میں دہشت اوربدامنی پھیلاناتھا۔دنیابھارت کےہتھکنڈوں سےبخوبی آگاہ ہےمگرپھربھی ایسالگتاہےکہ گویاعالمی برادری جان بوجھ کراپنےمفادکی خاطرآنکھیں بند کر لیتی ہے۔چالبازی سےخود مظلوم بن کر دوسرے اداروں اورممالک خصوصاًپاکستان کومورد الزام ٹھہرانا اور جھوٹے الزامات کا راگ الاپنا سالوں سے بھارت کاوطیرہ ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نےخطےمیں دہشتگردی کوفروغ دینےکےجھوٹےالزام لگاکربےشمارمرتبہ پاکستان کوتنہاکرنے کی کوشش کی جبکہ سمجھوتہ ایکسپریس کا اندوہناک واقعہ ہو ،گجرات میں قتل عام ،سکھ کمیونٹی کا استحصال یاسب سےبڑھ کر جموں کشمیر میں غیرانسانی اوربربریت کاارتکاب ،بھارت خودوہ ملک ہے جو جارحانہ اور انتہا پسندانہ مائنڈ سیٹ پر چل رہاہے۔مزید برآں عدالمی عدالت انصاف میں بھارت کا حالیہ واویلا بھی اسکے انہی کینہ پرور ارادوں کی عکاسی کرتا ہے۔ قارئین کے سامنے میں یہ سوال رکھتا ہوں کہ کیا کسی ایسے شخص کو جو پاکستان میں تعیناتی کےدوران مختلف خفیہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا خود اعتراف کر چکا ہو اسے اپنے ہولناک اور پاگل پن پر مبنی جرائم کی سزا دئیے بغیر آزاد کیا جا سکتا ہےجو اس سے نہ صرف ریاست بلکہ پاکستان کے معصوم عوام کیخلاف کئےہوں؟ وہ شخص جو گرفتاری کے وقت پاکستان میں اپنے خاندان کے ساتھ حسین مبارک پٹیل کی جعلی شناخت کیساتھ رہ رہا تھا جس سے اصل بھارتی پاسپورٹ بھی برآمد ہوا اوراسی سےہی ایجنسیوں نےاسےسابق نیول آفیسر کے طور پر شناخت کیا۔قابل ذکربات یہ ہےکہ کلبھوشن کےاپنے باپ سدھیر یادیو نے اپنے بیٹے پر عائد الزامات سے انکار نہیں کیا اورالگ رہا۔قارئین کےلئےیہ جاننااہم ہےکہ کلبھوشن صرف جاسوس نہیں تھابلکہ ایک مڈل مین بھی تھاجو پاکستان بھر میں دہشتگرد نیٹ ورکس کو پیسے اور سہولیات فراہم کرنے میں بھارت کی مدد کرر ہا تھا۔ اسکی خصوصی کارروائیوں میں مہران بیس حملہ ، ایم اسلم کاقتل،بلوچستان میں عسکریت پسندی کوفروغ دینا اور سی پیک پر عملدرآمد کو نا کام بناناتھااور اس مقصد کے لئے اسے پاکستان میں 30سے 40را ایجنٹس داخل کرنا تھے۔مجھےاس بات پر کوئی تعجب نہیں کہ کلبھوشن نے اعتراف کیا کہ وہ را کے جوائنٹ سیکرٹری انیل کمار گپتاکی کمان میں تھا اور ان کا بنیادی مقصد وطن عزیز میں امن کو تہہ و بالا کرنا تھاجبکہ بھارت کلبھوشن کے اعتراف جرم کو دبائو کا نتیجہ قرار دیتا رہاہےلیکن میرے نقطہ نظرمیں اگرکوئی شخص اپنےخلاف متعددشواہدجودہشتگردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونےکوثابت کرتے ہوں کیساتھ رنگے ہاتھوں پکڑا جائے تو اس عنصر کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ کلبھوشن یادیو کا ٹرائل ملکی قانون کے تحت مکمل طور پر شفاف طریقے سے ہوا اور اسے پاکستان کے آئین کے تحت پاکستان آرمی ایکٹ کے سیکشن 59 اور 1923کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 3کے تحت موت کی سزا دی گئی۔ اس معاملے کے طول دینے کے پس منظر میں بھارت کے حقیقی عزائم جاننے اور اس عمل میں پاکستان کو بد نام کرنے کی کوشش کی باوجود یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ پاکستان کس طرح اس جال میں آگیا؟ دفتر خارجہ یہ بات واضح طور پر جانتا تھا کہ آئی سی جےکےدائرہ اختیار کی قبولیت کوواپس لیاجاسکتاہے کیونکہ یہ رضا کارانہ فیصلہ قوم کو اعتماد میں لئے بغیر تن تنہا کیا گیاتھا۔پاکستان کوچاہئےتھاکہ وہ’’ عبوری اقدامات‘‘کی شق کےتحت آئی سی جے میں دائر کئےگئےبھارتی دعوے کو سادگی سے مسترد کر دیتاکیونکہ ہم ایک دہشتگرد اور جاسوس کو سزا دے کر جس کا وہ حقدار ہے کسی بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کر رہے۔ تاہم یہ بات بھی زیر نظر رہنی چاہئے کہ اسلام آباد میں 21مئی 2008ء کو دستخط کئے گئے ’’ قونصلر رسائی کے سمجھوتے ‘‘ کی شق 6 کے تحت جس پر پاکستان کے ہائی کمشنر شاہد ملک اوربھارتی ہائی کمشنر ستیا براتاپال نےدستخط کئے تھے کہتی ہے ’’ گرفتاری ، حراست یا سیاسی و سکیورٹی بنیادوں پر سزا کی صورت میں ہر فریق اپنے معیارات کےمطابق اس کا جائزہ لے گا ‘‘ ۔ ہمارا ملکی قانون سفارتی و قونصلراستحقاقات ایکٹ 1972ء واضح طور پر ’’قونصلر کے حق اور استحقاقات‘‘ بتاتا ہے اور وہ کریمنل یا امیگریشن الزامات پر گرفتار کئے گئے ایک غیر ملکی تک قونصلرکی رسائی کے بارے میں خاموش ہے۔ پس پاکستان کلبھوشن یادیو تک رسائی دینے کا پابند نہیں۔ ویانا کنونشن کا آرٹیکل 36 کریمنل چارجز پر گرفتار کئے گئے غیر ملکی شہری تک قونصلر رسائی دینے کا پابند نہیں کرتا۔ اس کنونشن کے آرٹیکل 36(2)کا یہ پیرا واضح کر دیتا ہے کہ یہ حق متعلقہ ملک کے قوانین اور قواعد کے مطابق ہی دیا جائے گا۔ پس پاکستان نے کلبھوشن یادیو تک رسائی نہ دے کر قانونی دائرے کے اندر رہ کر ہی قدم اٹھایا ہے۔ اسے قونصلر رسائی دیناکیا اس سے متصادم نہ ہو گا؟ میں ماضی کی کچھ یادیں بھی تازہ کرنا چاہتا ہوں جب 2008ء میں بھارت نے نان سٹیٹ ایکٹرکےاقدامات کے ذمہ دار ایک پاکستانی کو گرفتار کیا جسےاجمل قصاب کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس وقت عالمی برادری بھارت کے ساتھ کھڑی ہو گئی تھی اور پاکستان کو تنہا کر دیا تھا۔ہم نے اپنے کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے نومبر 2008ء کے ممبئی حملوں جیسے خوفناک واقعے کے مجرموں کو پکڑنے کے لئے بھارت کو مکمل سہولت فراہم کی کیونکہ اس واقعے میں ہماری سر زمین کو استعمال کیا گیا تھا یہی وجہ تھی کہ جب 21 نومبر 2012ء کو قصاب کو پھانسی دی گئی تو پاکستان نے بلا جھجک اس فیصلے کو قبول کیا۔ میرا عالمی برادری سے سوال ہے اور مجھے تشویش ہے کہ اب جب ایک جاسوس رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے جو بڑے پیمانے پر دہشتگردی پھیلانے میں ملوث ہے۔ تو آخر عالمی برادری کیوں خاموش ہے ؟ آج جب پاکستان کو ہر طرف سے بین الاقوامی خطرات کا سامنا ہے تو ایک متحدہ قومی محاذ کی جتنی ضرورت ہے وہ اس سے پہلے نہ تھی تاہم قانونی اور انتظامی طور پر حکومت آئی سی جے کے محاذ پر ٹھوس قانونی دفاع پیش کرنے میں ناکام رہی ہے اور وہ دنیا کے سامنے بھی پاکستان کی اصل پوزیشن پیش نہیں کرسکی۔ پاکستان نے بغیر تیاری کے آئی سی جے میں جا کر یہ موقع ضائع کر دیا ہے۔ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ آخر دفتر خارجہ نے قومی دفاعی ٹیم پر اعتماد کا اظہار کیوں نہیں کیا جیسا کہ اس کے مد مقابل نےکیابلکہ ایک قطری وکیل کی صلاحیتوں پر اعتماد میں سہولت محسوس کی جسے کیس کی تیاری کے لئے انتہائی محدود وقت دیا گیا۔ اس طرح 10مئی سے قبل عالمی عدالت میں ایک پاکستانی ایڈ ہاک جج مقرر کرنے کا معاملہ بھی نام نہاد انتہائی تیار لیگل ٹیم کی کارکردگی پر سوال ہے جو اتنی اہمیت کے حامل ایک قومی معاملے میں دفاع کے لئے جاری تھی۔ یہ پاکستان کی سالمیت اور یکجہتی کا معاملہ ہے جسے بھارت نے ہمارے ملک کے خلاف خفیہ کارروائیوں کے لئے ایک جاسوس بھیج کر پامال کیا ہے ، پس ہمیں عالمی محاذ پر اس کیس کے دفاع کے لئے مضبوط اور متحدہونا ہوگا اب جبکہ حکومت نے اس کیس میں دفاع کا فیصلہ کیا ہے تو مجھے امید ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کریں گے اور اس امرکو یقینی بنائیں گے کہ جب ہم پھر عالمی عدالت کے محاذ پر پیش ہوں تو ہماری کمر نہ ٹوٹے۔


.
تازہ ترین