• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتہاپسندی کیخلاف علمائے کرام متفق:تاریخ سازپیشرفت

ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے جاری کوششوں میں گزشتہ روز ایک نہایت اہم اورتاریخ ساز پیش رفت تمام مکاتب فکر کے اکتیس جید اور مستندومعتبر علمائے کرام کی جانب سے دہشت گردی اور تخریب کاری کی تمام کارروائیوں کو حرام قرار دیتے ہوئے آپریشن ضرب عضب اور رَدُّ الفساد کی بھرپور تائید کی شکل میں منظر عام پر آئی ہے ۔یہ فتویٰ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے زیر اہتمام’’میثاق مدینہ کی روشنی میں معاشرے کی تشکیل‘‘ کے موضوع پر ہونے والے سیمینار کے اختتام پر جاری کیا گیاجس میں ملک بھر سے مختلف مکاتب فکر کے ممتاز علمائے کرام نے شرکت کی۔دارالعلوم کراچی کے سربراہ مفتی رفیع عثمانی، چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمٰن، دارلعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے نائب مہتمم مولانا حامدالحق حقانی ، صدر وفاق المدارس الشیعہ اور جامعہ المنتظرلاہور کے سربراہ علامہ سید ریاض حسین نجفی اور وفاق المدارس السلفیہ کے ناظم اعلیٰ مولانا یاسین ظفر سمیت اکتیس علمائے کرام کے دستخطوں کیساتھ جاری کردہ فتوے میں فرقہ وارانہ منافرت، مسلح فرقہ وارانہ تصادم اور قتل و غارت گری اور طاقت کے بل پر اپنے نظریات دوسروں پر مسلط کرنے کو فساد فی الارض قرار دیا گیا ہے اور ایسی سرگرمیوں کیخلاف ریاستی اداروں سے بھرپور کارروائی کی اپیل کی گئی ہے۔فتوے میں کہا گیا ہے آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کی مکمل حمایت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی،تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں جن کا ہمارے ملک کو سامنا ہے، اسلامی شریعت کی رو سے قطعی حرام ہیں اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں اور ان کا تمام فائدہ اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کو پہنچ رہا ہے۔ فتوے کے مطابق ملک میں خود کش حملے کرنے اور کرانے والوں ہی کے خلاف نہیں ، ان کی معاونت کرنے والوں کے ساتھ بھی وہی کارروائی ہونی چاہیے جو باغیوں کے خلاف ہوتی ہے۔علمائے کرام نے اپنے متفقہ فتوے میں وضاحت کی ہے کہ جہاد شروع اور منظم کرنے کا اختیار کسی شخص یا گروہ کو نہیں بلکہ صرف اسلامی ریاست کو حاصل ہے ۔فتوے کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام شہری دستوری اور آئینی میثاق کے پابند ہیں جس کے تحت قومی مفادات کا تحفظ کرنا ان کی لازمی ذمہ داری ہے۔ علماء نے دوٹوک الفاظ میں اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ انتہاپسندانہ سوچ اور شدت پسندی جہاں بھی ہو، اسکے خلاف جدوجہد ہمارے دین کا تقاضا ہے۔ اس اہم فتوے پر دستخط کرنے والے دیگر علمائے کرام میںمولانا محمد حنیف جالندھری، مولانا مفتی محمد نعیم،صدر وفاق المدارس پاکستان مولانا عبدالرزاق اسکندر،مولانا غلام محمد سیالوی، مولانا زاہد محمود قاسمی اور جامعہ اشرفیہ لاہور کے نائب ناظم تعلیمات مولانامفتی محمودالحسن محمود جیسی ممتاز دینی شخصیات شامل ہیںجس سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہے کہ یہ پاکستان کی پوری دینی قیادت کا متفقہ موقف ہے۔ اسلام کے نام پرانتہا پسندی اور تشددکا پرچار کرنے والی تنظیمیں دینی مدارس ہی کے نہیں جدید تعلیمی اداروں کے نوجوانوں کو بھی جتنے بڑے پیمانے پر متاثر کررہی ہیں اس کے تدارک کیلئے ملک کی دینی قیادت کی جانب سے ایسے دوٹوک اور فیصلہ کن موقف کی ضرورت عرصے سے محسوس کی جارہی تھی اور پوری پاکستانی قوم کیلئے یہ امر یقیناً انتہائی باعث اطمینان ہے کہ تمام مسالک کے علمائے کرام نے بالآخر اس ضرورت کا احساس کیا اور ایک جامع فتوے کی شکل میں اس کی تکمیل کردی۔ اسکے بعد دین کے نام پر فرقہ وارنہ منافرت پھیلانے اور پاکستان کے خلاف دہشت گردی کو باعث ثواب باور کرانے والی تمام تنظیموں کی قیادتوں، وابستگان، معاونین اور ہمدردوں کو خود فیصلہ کرنا چاہئے کہ اسلام کے حقیقی تقاضوں کی رو سے وہ کہاں کھڑے ہیں ۔ انہیں جان لینا چاہیے کہ ان کی یہ منفی سرگرمیاں ان کیلئے جنت کا نہیں دوزخ کا راستہ ہموار کررہی ہیں۔

.
تازہ ترین