• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بجٹ کیسا ہے؟سچ یہ ہے کہ معاشیات کی رسمی تعلیم کے باوجود میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ بجٹ کیسا ہے کیونکہ یہ بہت پیچیدہ معاملہ ہے۔ کوئی ایک آدھ جینوئن ماہر معاشیات بھی اس پر سیر حاصل تبصرہ نہیں کرسکتا۔ میں نے اکنامکس پڑھی ضرور لیکن کیونکہ پریکٹس کبھی نہیں کی اس لئے عام آدمی کی نسبت بہت بہتر طور پر سمجھ یا Feelتو ضرور کرسکتا ہوں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں لیکن میں ایک ایسا طریقہ، نسخہ یا گر ضرور بتاسکتا ہوں جسے آزمانے کے بعد میٹرک پاس ٹین ایجر بھی بجٹ کا’’بھید‘‘ پالے گا۔بجٹ کے بارے میں جاننے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ جس ملک کا بجٹ پیش ہوا وہ ملک یعنی اس کا نظام کیسا ہے، اگر تو نظام عوام فرینڈلی ہے اور اسی انداز میں پریکٹس بھی ہورہا ہے تو بجٹ بھی عوام دوست ہوگا لیکن اگر نظام ہی عوام فرینڈلی نہیں اور اس کے چلانے والے اور حکمران، نگران بھی عوام فرینڈلی نہیں تو بجٹ بھی کسی صورت عوام دوست ہوہی نہیں سکتا۔ مجھے صرف یہ بتائیں یہاں کون سا ادارہ، شعبہ یا محکمہ عوام دوست ہے؟عوامی نمائندے؟ کیا یہ واقعی عوام کے دردی ہیں؟سول بیوروکریسی؟ کیا یہ عوام کو آسانیاں پہنچانے میں پیش پیش ہیں؟زیریں عدلیہ کہ عوام کا زیادہ تر واسطہ ا نہی سے پڑتا ہے۔اب ذرا آگے تھوڑی تفصیل میں چلتے ہیںکیا پولیس اور دیگر سول وردی پوش اور دوسرے ادارے عوام دوست ہیں؟محکمہ تعلیم کس قدر ڈلیور کررہا ہے؟ بیرون ملک سفارتخانے عوام کے کیسے خادم؟ایکسائز یا کسٹمز والے؟واسا یا واپڈا؟کوئی سی بھی کارپوریشن یا محکمہ انہار؟صحت عامہ یا پٹوار خانہ؟پی آئی اے یا ریلوے؟عوام کا ہے کون جو بجٹ عوام کا ہوگا۔آئے روز کسی نہ کسی محکمہ شعبہ یا ادارے اور متعلقہ حکام کے بارے میں ایک ہی خبر آتی ہے……کھاگئے، لوٹ گئے، بیچ گئے، ہڑپ کرگئے اور وزیر اعظم کا رویہ مضحکہ خیز کہ کرپشن روکیں گے تو ترقی رک جائے گی اور ترقی بھی ایسی منحوس جس نے قوم کا بچہ بچہ مقروض کردیا۔ سوچو تو سہی میری جیب کاٹنے والا میرا دوست کیسے ہوسکتا ہے؟بندگان خدا! یہاں تو پرائیویٹ’’ادارے‘‘ اور ریستوران بھی عوام دوست نہیں جو خوراک کے نام پر گاہکوں کو گندگی اور زہر کھلاتے ہیں……یہاں عوام دوست ہے کون جو اسحقٰ ڈار یا اس کا بجٹ عوام دوست ہوگا؟ وہ تو خود اپنے ساتھیوں اور باسز سمیت نوزائیدہ اشرافیہ ہے تو بھلا اشراف کا سہولت کار ہوگا یا عوام کا؟بھیڑ اور بھیڑئیے کے ساتھ بیک وقت ایک جیسی دوستی تو ممکن نہیں اور بجٹ میں ایک طرف بے ضرر بھیڑیں ہوتی ہیں دوسری طرف خونخوار بھیڑئیے جو حکومتوں کی بھی چیرپھاڑ کرسکتے ہیں تو اقتدار بیچارہ کدھر جائے؟ خواص انہیں خراشوں میں تبدیل کرسکتے ہیں جبکہ عوام زیادہ سے زیادہ چند ٹریفک سگنلز توڑ سکتے ہیں یا ٹائر جلا کر اپنی ہی اولادوں کے لئے ماحول کو مزید آلودہ کرسکتے ہیں یعنی ’’رب نیڑے کہ گھسن‘‘ والی صورتحال ہو تو ڈار بیچارہ کدھر جائے؟ وہ بڑےتاجروں، صنعتکاروں، مختلف بروکروں اور ملٹائی نیشنل کمپنیوں کو دیکھے یا موم کے پتلوں اور مٹی کے مادھوئوں یعنی عوام کو؟ اس لئے یہ سوچنا ہی پاگل پن ہے کہ کوئی بجٹ ان حالات میں کبھی عوام فرینڈلی بھی ہوسکتا ہے۔یاد رکھیں ہمارا پیارا اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک ایسی گائے کی مانند ہے جس کے تھنوں والے حصہ پر مخصوص مافیاز کا قبضہ ہے اور چارہ کھانے والا حصہ یعنی گائے کا منہ عوام کا حصہ ہے سو عوام اسے اپنی بوٹیوں کا چارہ کھلاتے اور خون پسینہ پلاتے ہیں……اور سارے کا سارا دودھ مختلف قسم کی اشرافیہ پی جاتی ہے لیکن یہ اشرافیہ اتنی بے رحم اور سفاک بھی نہیں کہ آخر ہمارے ہم وطن مسلمان بھائی ہیں اس لئے صلہ رحمی کے تحت اپنے حصے یعنی تھنوں والی سائیڈ کا گوبر عوام کو دان کردیتے ہیں جس کی پاتھیوں یعنی اپلوں کی کمائی پر عوام پل رہے ہیں، رینگ رہے ہیں اور ’’زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے‘‘ ۔ صلہ رحمی اپنی جگہ پر لیکن انہیں زندہ رکھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر یہی نہ رہے تو ووٹ کن سے لیں گے؟ حکومت کن پر کریں گے؟ کس کو بطور کولیٹرل رہن یا گروی رکھ کر قرضے، امداد یں یا گرانٹیں لیں گے؟میں نے ایک پیچیدہ ترین مسئلہ یا معاملے کو ضرورت سے زیادہ اوور سمپلی فائی(Oversimplify)کردیا جس کے لئے معذرت خواہ ہوں لیکن عام آدمی کو سمجھانے کے لئے اسی طرح کا’’کلام معرفت‘‘ درکار ہے اور یوں بھی مردناداں پر’’کلام نرم و نازک‘‘ بے اثر ہی رہتا ہے۔عجیب ملک، ماحول اور نظام ہے کہ جو بغیر عینک کے آئینے میں اپنا چہرہ نہیں دیکھ سکتے، وہ پہلی کا چاند دیکھنے پر مصر ہیں اور محکمہ موسمیات کی مداخلت انہیں ناپسند ہے کیونکہ ان کی’’نیوسنس ویلیو‘‘ ہے۔ اسی لئے میں اکثر کہتا ہوں کہ اس ملک، نظام میں صرف ایک ہی’’ویلیو‘‘ باقی رہ گئی ہے جسے’’نیوسنس ویلیو‘‘ کہتے ہیں۔ یہاں صرف وہ میٹر کرتا ہے جو آپ کو Harmکرسکتا ہے یعنی نقصان پہنچا سکتا ہے یاHelpکرسکتا ہے یعنی مدد دے سکتا ہے۔ باقی جائیں بھاڑ میں۔یہ کہتے ہوئے بھی نہیں شرماتے کہ رمضان میں غریبوں کا خیال رکھیں یعنی باقی گیارہ مہینے ان کا خیال نہ رکھیں اور کمال یہ کہ رمضان میں ہی مہنگائی کا طوفان آتا ہے، میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟ایسے اخلاق باختہ، عوام دشمن ماحول میں عوام دوست بجٹ کی بات ہی لغو، بیہودہ اور بے بنیاد ہے۔چلتے چلتے یہ بھی سن لیں کہ سرمایہ دارانہ نظاموں میں بدمعاشی ملٹائی نیشنلز اور کارپوریشنز کی ہی چلتی ہے لیکن ’’مہذب سرمایہ دارانہ معیشتوں‘‘ میں حکومتوں ’’بدمعاشوں‘‘ کو ملائی کھانے کی اجازت تو دیتی ہیں لیکن ’’گائے‘‘ کا دودھ ہر قیمت پر عوام میں تقسیم ہوتا ہے اور ان کی بنیادی ضروریات پر قطعاً کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا جبکہ ہمارے ہاں عوام کو گائے کا گوبر نصیب ہوتا ہے کہ کچھ پاتھیوں سے چولہا جلالیں، باقی بیچ کر دو وقت کی روٹی کا سامان کرلیں اور ملی نغمے سن کر خوش رہیں کہ اس پرچم کے سائے تلے؟نوٹ: حالیہ بجٹ میں صدر ممنون حسین کی تنخواہ میں چھ لاکھ روپے سکہ رائج الوقت کا اضافہ انہیں مبارک ہو۔ پرفارمینس ہی ایسی تھی۔ کاش کبھی کرنسی نوٹوں پر نواز شریف کی تصویر بھی دکھائی دے کہ ایک یہی کمی اور کسر رہ گئی ہے ہماری’’اکونومی‘‘ میں۔

.
تازہ ترین