• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک افغان فاصلے دور کئے جائیں
افغان درخواست پر انسانی ہمدردی کے تحت چمن سرحد کھول دی گئی، سیدھی سی بات ہے کہ افغان عوام نہیں چاہتے کہ پاک افغان تعلقات خراب ہوں بلکہ وہ اب بھی ماضی کی حسین یادیں ملاقاتیں آنا جانا یاد کرتے ہیں، یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ افغانستان میں ایک غیر افغان فیکشن بھی موجود ہے، جو ابتداء ہی سے پاکستان مخالف رہا ہے، چمن سرحد کھول دی گئی اچھا کیا، باقی دروازے بھی کھول دیئے جائیں اچھا پیغام جائے گا، افغان عوام کو، موجودہ افغان حکمرانوں کی مجبوریوں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے، دہشت گردی کے موجد دہشت گردی کے نام پر افغانستان کے اعصاب پر سوار بیٹھے ہیں، بھارت کلیدی رول ادا کر رہا ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کے لئے افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہا ہے، یہ افغان عوام کو معلوم ہے مگر ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے لئے افغانستان کو غیروں کے تسلط سے نجات دلانے میں ڈپلومیسی سے کام لے کر اصل اور جائز ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ 36اسلامی ممالک کے عسکری اتحاد کے بعد افغانستان میں نیٹو، امریکی اور بھارتی فورسز کا وہاں موجود ہونا بلا جواز ہے، بلکہ یہ ایک اسلامی ملک پر قبضے کی سی صورت ہے، 36ملکی اتحاد کو افغانستان آزاد ریاست بنانے کے لئے کارروائی کرنا چاہئے، پاکستان اس وقت اپنی سفارتکاری کے حوالے سے بری طرح ناکام ہے، خارجہ امور کی وزارت کا خاوند ہی نہیں، آخر یہ رنڈوی وزارت افغانستان کو دل جیتنے اور وہاں سے بھڑوں کے چھتے ہٹانے میں کیا کر سکتی ہے، ماسوائے اس کے کہ ہمارے دفتر خارجہ کے ترجمان کی شکل ایک کاغذ پڑھ کر سناتے ہوئے کبھی کبھی دکھائی پڑتی ہے، پاکستان، افغانستان سے ماضی جیسے تعلقات قائم کرنے کے لئے کوششیں تیز کر دے۔
٭٭٭٭
بجٹ سیاست
یوں تو بجٹ اچھا، عوام دوست اور متوازن تھا، مگر وزیر خزانہ کی شخصیت سے ’’تھلے تھلے‘‘، ان کے چہرئہ پُر نور پر بجٹ پیش کرتے ہوئے اور پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں جو انبساط اور تازگی تھی اس سے صاف جھلکتا تھا کہ انہوں نے بزعم خویش عوام کو ایسا بجٹ دیا ہے جسے وہ 12ماہ تک چباتے رہیں گے چاہے ان کا حلق خشک ہی رہے، انہوں نے بڑی مہارت سے بجٹ تقریر اور پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں تھوڑی سی سیاست بھی کی، اگر دھرنے نہ ہوتے تو کیا وہ سو ارب بچ جاتے جو دھرنے کھا گئے، پی ٹی آئی کو ذمہ دار ٹھہرا کر اسے بھی بجٹ میں استعمال کر لیا اور بجٹ کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں بھی بقدر ضرورت سیاسی تڑکا لگایا، انہوں نے چاکلیٹ پر ٹیکس اس لئے نہیں لگایا کہ بیگم نے بچوں کا حوالہ دے کر انہیں ایسا کرنے سے روک دیا، پاکستان کے چاکلیٹ خور اشرافیہ بچوں کا خیال رکھنے پر عوام کے بچے ان کے شکر گزار ہیں، کیونکہ وہ چاکلیٹ کی جگہ روٹی کھاتے ہیں اگر مل جائے تو، تنخواہ دار طبقے اور پنشنرز نے 25فیصد کی آس لگا رکھی تھی مگر ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ ہائے وہ آرزوئیں جو رزق بجٹ ہو گئیں۔ اب عوام یہ بھی سمجھ گئے ہیں کہ اس ملک میں جو بھی ہوتا ہے ان کے لئے، ان کے نام اور ان کے ایک ہی حالت میں رہنے کے لئے کیا جاتا ہے، اور بجٹ میں یہ وژن نمایاں تھا، انہوں نے پریس کانفرنس سے مخاطب ہو کر فرمایا دھرنے سے معیشت کو 100ارب کا نقصان ہوا، چھٹا بجٹ بھی پیش کریں گے، یہ چھٹے بجٹ بارے ان کو عین الیقین ہو گیا اس کی البتہ سمجھ نہیں آئی، حالانکہ ان کی ہر بات سمجھ آ گئی۔
٭٭٭٭
توقع
جب پاکستان بنا تو یہ امکانات کا ملک تھا، کچھ عرصہ یہی صورت رہی، پھر جمہوریت کے دیوانے، مستانے، متوالے، جیالے آئے، موسم بدل گئے، خزاں کو بہار منوایا جانے لگا، لارے لئے کے کھدر میں لپیٹ کر توقعات کی تقسیم شروع ہوئی، کرسیاں بیٹھنے والوں سے تنگ آ گئیں مگر طالع آزما جم کر بیٹھے رہے، ڈٹے رہے، حکمرانوں نے عوام کو مرنے جینے کے درمیان وادیٔ توقعات میں آباد رکھا کہ انہی پر تھا اور ہے مدار قوت حکمرانی، کسی کی جیب میں 100روپے تھے تو 25رہنے دیئے 75اڑا لئے، جیب تراشی کے زور پر جن کے پاس کچھ نہ تھا، وہ دیکھتے ہی دیکھتے اشرافیہ بن گئے، ان چند خاندانوں نے نام و ننگ، حسب و نسب بھی بنا لیا، جو نہ کمانا تھا وہ بھی کما لیا، لوگ جو معصوم ہوتے ہیں، اپنی مٹی سے پیار کرتے ہیں، انہیں جھوٹوں نے یقین کا شربت پلایا، توقع نہیں اٹھنے دی کہ اٹھ جاتی تو کسی کو بیوقوف بناتے، لوٹتے، اور اپنے مقاصد کے لئے زندہ رکھتے سینکڑوں بجٹ سن کر دیکھ کر بھگت کر بھی بجٹ سے امید نہ توڑی، اور اب تو تقریباً قیامت بھی قریب ہے کہ نشانیاں آنے لگی ہیں، مگر اس کتاب مقدس کو پڑھا، سمجھا نہیں کہ وہ اس کی زبان نہیں جانتے البتہ انگریزی جانتے ہیں، اپنی ہر کوتاہی، غلطی، ظلم و ستم پر خاموشی کو صبر سے تعبیر کر کے ثواب کی نیت سے لمبی تان کر سو گئے،قسمت، نصیب، تقریر کے غلام یہ معصوم لوگ اللہ کی رضا کو بھی نہ سمجھ سکے، خوف ڈر ہراسانی نے لٹیروں کو بہت مضبوط کر دیا، ہر چہرے پر ایک ڈر ضرور ہے خوف خدا۔ اِدھر ہے نہ ادھر ہے، ڈرے سہمے ہوئے لوگ کب قوم بن سکتے ہیں اور کب وہ زمین کے ایک ٹکڑے کو ملک بنا سکتے ہیں، عوام کے حصے کا رزق خوشی، مراعات کون کھا جاتا ہے توقع ختم کر کے اپنی حالت بدلنے کا سامان کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہم میں تیل ہے اس لئے مسلا جاتا ہے، ہم اس کی اجازت کیوں دے دیتے ہیں۔
٭٭٭٭
حکومت کے پاس لگام ہی نہیں
....Oرمضان کا آغاز اور مہنگائی بے لگام۔
حکومت کے پاس لگام ہو تو مہنگائی کو ڈالے اور کم از کم مبارک مہینے کو تو آزاد کرائے۔
....Oاسحاق ڈار نے چارٹر آف اکانومی تیار کرنے کے لئے سیاستدانوں کو دعوت دے دی۔
کیا سیاستدان اس گونگلو جھاڑ دعوت کو قبول کر لیں گے، ڈار صاحب عوامی میلہ لگائیں ان سے پوچھیں کہ بجٹ انہیں کس بھائو پڑا، وہ جو کہیں اس پر عمل کریں، یہی چارٹر آف عوام ہے۔
....Oغلطی سے لائن آف کنٹرول پار کرنے والے چار طلبہ کو بھارتی فوج نے حراست میں لے لیا۔
کلبھوشن کو یرغمالی ڈھال کے ذریعے چھڑانے کے لئے بھارت قیدیوں کی بھاری نفری تیار کر رہا ہے کیا پاکستان کو ایسا کرنا منع ہے؟ کم از کم ایک کے بدلے ایک تو ہم بھی رہا کر ا سکیں!
....Oوزیر خزانہ کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران اے سی نے کام کرنا چھوڑ دیا۔
لگتا ہے یہ ایئر کنڈیشنر بھی سیاسی ہے۔

.
تازہ ترین