• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے گزشتہ جمعہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں اپنی موجودہ حکومت کا پانچواں بجٹ پیش کر دیا۔ پاکستان میں پچھلے 12ماہ سے 18ماہ کے پریشان کن سیاسی حالات اور دیگر مشکلات کے باوجود متوازن بجٹ کرنا ایک کارنامہ ہے۔ ورنہ تو ہر روز ہر ماہ ایسے لگتا تھا کہ یہ حکومت صبح گئی یا شام گئی۔ بہرحال جمہوریت بھی فی الحال بچ گئی اور حکومت اپنی رواں مدت کا پانچواں بجٹ پیش کرنے میں بھی کامیاب ہو گئی۔ اب ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں بجٹ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی رسمی مخالفانہ تقریروں کے پس منظر میں منظور کر لیا جائے گا۔ البتہ PTIکے ارادے خطرناک ہیں۔ عمران خان اور ان کی جماعت سمجھتی ہے کہ بجٹ میں عوام کے لئے کچھ نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی کرپشن کے خاتمہ کے لئے کوئی اقدامات سامنے آئے ہیں بلکہ کئی اعلانات کی وجہ سے آنے والے عرصہ میں مہنگائی اور غربت کی شرح میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے کئی رہمنا حیران ہیں کہ پولٹری کی صنعت کو رعایتیں دے کر اور شتر مرغ کی برآمد کیلئے اقدامات کے پس منظر میں کیا مقاصد ہیں۔ کیا عرب شہزادے شتر مرغ کا شوق تو نہیں رکھتے۔ بہرحال اس بحث سے ہٹ کر دیکھا جائے تو موجودہ مشکل حالات میں یہ ایک متوازن بجٹ ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں وغیرہ میں اضافہ معمول کی بات ہے۔ جبکہ پریشان کن بات آڈٹ سروسز کے اخراجات 1363ارب روپے تک بڑھنے کے ہیں۔ دفاعی اخراجات پر بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہر ملک میں اس شعبہ کے اخراجات ایسے ہی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ ہوتے ہیں۔ اصل مسئلہ آڈٹ سروسز میں اضافہ کا ہے۔ جبکہ دوسری طرف حسابات جاریہ کا خسارہ اور برآمدات میں کمی بھی ایک علیحدہ بڑی تشویش ہے۔ نئے بجٹ میں سی پیک کے لئے منصوبوں کے لئے 185ارب روپے رکھنے کے برعکس سیمنٹ اور اسٹیل (سریا) پر ٹیکس عائد کرنے اس حوالے سے شاید کچھمسائل بڑھ جائیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو رقوم کی آمدن میں کمی سب سے زیادہ توجہ چاہتی ہے اس لئے کہ پاکستان کی معیشت کا 70فیصد انحصار اس آمدن پر ہے۔ اگر یہی کم ہوتی جائے گی تو پاکستان کے معاشی حالات اس سے بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں۔ ہماری معیشت کا دوسرا بڑا انحصار انفارمل سیکٹر اور SMEسیکٹر پر ہے۔ انفارمل سیکٹر یعنی متوازن معیشت کے مقام میں تو بہتری لانا یہ حکومت کیا، کسی بھی سیاسی حکومت کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ کہ ملک میں مسلم لیگ (ن) کا سب سے بڑا ووٹ بینک تاجر اور یہ طبقہ ہے جو متوازن معیشت چلا رہا ہے اس طبقہ پر خاص کر موجودہ حالات میں سختی کرنے سے حکومتی مسائل بڑھنے سے ان کے ووٹ بینک پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ ایسے تو بجٹ میں اس حوالے سے بڑے دعوے کئے گئے ہیں مگر حقیقت میں کوئی عملی اقدام واضح نہیں نظر آیا۔ بجٹ میں نان فائلرز پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ ایک رسمی اعلان ہے۔ اس لئے تو نان فائلرز پر ہاتھ ڈالنے کے لئے وزارت خزانہ اور FBRدونوں میں ہمت نہیں ہے جبکہ موجودہ حالات کی اشد ترین ضرورت صرف اور صرف نان فائلرز کو ٹیکسنیٹ میں لانے کی ہے۔ جس کے لئے بھرپور سیاسی قربانی اور قوت کی ہے جس کا اظہار پاناما کیس کے بعد حکومت کی طرف سے کم ہی کیا جا رہا ہے۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق یہ پاکستان میں 2018ء کے انتخابات کے پس منظر میں عوام کو ریلیف دینے کا بجٹ ہے جس میں ایک عرصہ کے بعد زرعی شعبہ کے لئے کافی کچھ کیا گیا ہے۔ مگر اتفاق دیکھئے کہ جس پارلیمنٹ میں زرعی شعبہ کے لئے مراعات کا اعلان کیا جا رہا تھا۔ اس کے باہر ڈی چوک میں کچھ گھنٹے کسانوں کی پٹائی کا منظر بھی دنیا نے دیکھا۔ بجٹ کے اعلان کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نئے مالی سال کو صرف اور صرف ’’نان فائلرز‘‘ کو ٹیکس نٹ میں لانے کے اقدامات کرے۔ اس سے عوام پر سالانہ اربوں روپے کے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ ٹیکس لگانے کے رجحان میں کمی آئے گی۔ نئے بجٹ میں بھی تقریباً 500ارب روپے کے اضافی ریونیو کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ جو رواں مالی سال کے 3500ارب روپے کے ٹیکس ریونیو کی وصولی کے ہدف اور نئے ریونیو ہدف 4000ارب روپے کے درمیان فرق ہے۔ اس میں تقریباً 400 ارب روپے تو حکومت کو جی ڈی پی میں اضافی اور افراط زر 6فیصد کی آمدن سے حاصل ہو جائیں گے۔ اس کے باوجود 100ارب روپے سے 125ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کی گنجائش رہے گی۔ جس میں زیادہ حصہ کسٹم ڈیوٹی وغیرہ سے حاصل ہو گا۔ نئے مالی سال کے بجٹ کے کئی اعلانات کرشمہ سازی کے زمرے میں آتے ہیں جس کے بارے میں وقت کے ساتھ ساتھ عوام کو احساس ہو گا کہ ان کے ساتھ حکومت اور بیورو کریسی نے کیا کیا ہے۔ مجموعی طور پر انتخابی حالات کے پس منظر میں متوازن بجٹ اسحاق ڈار نے پیش کیا ہے۔ آگے کیا ہوتا ہے۔ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے اب عمران خان نے پشاور میں ماہ رمضان کے بعد عید کے فوراً بعد اپنی احتجاجی مہم کو مزید تیز کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اللہ خیر کرے۔ پاکستان کی اور پاکستان میں کرپشن، غربت اور نا انصافی جیسےمسائل اب حل ہو ہی جائیں تو بہتر ہے۔

.
تازہ ترین