• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کا پانچواں بجٹ پیش کرتے ہوئے اسے پوری قوم کیلئے فخر کا باعث قرار دیا،انہوں نے بجٹ تقریر کا آغاز ہی ان سطور سے کیا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب وزیراعظم اور وزیر خزانہ مسلسل پانچواں بجٹ پیش کر رہے ہیں،یہ چیز مضبوط جمہوریت کی عکاسی کرتی ہے جس پر پوری قوم فخر کر سکتی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے پہلی بار یہ لفظ اس لئے استعمال کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی منتخب جمہوری حکومت نے پانچ سالہ مدت تو پوری کی اور پانچ بجٹ بھی پیش کئے لیکن اس دوران اس کا وزیر اعظم اور وزرائے خزانہ تبدیل ہوتے رہے اور یہ سعادت صرف ایک وزیر اعظم اور وفاقی وزیرخزانہ کو حاصل نہیں ہو سکی جوجناب نواز شریف اور اسحٰق ڈار کے حصے میں آئی۔ عوام چاہئے فخرنہ کریں لیکن بلاشبہ پاکستان مسلم لیگ ن کیلئے چھبیس مئی ایک تاریخی دن سے کم نہیں ہے اور شاید جتنی خوشی اسے حاصل ہوئی ہے وہ پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے دن اٹھائیس مئی کی طرح اس دن کوجمہوریت کے ناقابل تسخیر ہونے کے دن کے طور پرمنانا شروع کر دے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وفاقی بجٹ پیش کرنے کا جب بھی موقع آیا اس نے مسلم لیگ ن کیلئے تلخ ماضی کی یادیں تازہ کرنے کے ساتھ اس کے وہ زخم ہرے کر دئیے جو آمریت نے اسے دئیے۔ موجودہ دور حکومت میں تمام نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے جناب نواز شریف کی قیادت میں ان کی جماعت کو گزشتہ سال تین جون کو پہلی بار یہ موقع حاصل ہوا تھا کہ وہ پہلی بار چوتھا بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ہو سکی تھی لیکن گزشتہ سال وزیر اعظم ہارٹ سرجری کے باعث اپنی سیاسی زندگی کی اس اہم کامیابی کا نظارہ نہیں کر پائے تھے بلکہ ملکی تاریخ میں پہلی بار انہوں نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وفاقی بجٹ کی منظوری دی تھی۔ بارہ اکتوبر1999ءکے بعد جناب نواز شریف اکثر یہ گلہ کرتے رہے ہیں کہ انہیں کبھی وہ دور اقتدار پورا نہیں کرنے دیا گیا جس کا مینڈیٹ انہیں پاکستان کے عوام نے دیا۔ یہ بحث الگ ہے کہ ہمیشہ آمروں کو قصوروارٹھہرانے والے وزیر اعظم نے اس پہلو پرکبھی غور کیوں نہیں کیا کہ آخر وہ کون سے عوامل تھے جن کے باعث ایک نہیں دو بار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا گیا۔ وہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کے اکلوتے خوش قسمت سیاست دان ہیں جنہیں تیسری بار وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہونے کا شرف نصیب ہوا ہے،مشیت ایزدی اپنی جگہ لیکن سب پر بھاری ہونے والے بھی اس کا سہرا حاصل کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کی قیادت کو وقتا فوقتا اپنا احسان جتاتے رہتے ہیں۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے پہلی بار جناب نواز شریف نے بطور وزیر اعظم 1990ءمیں عنان اقتدار سنبھالی توجو گوادر بندرگاہ آج تجارتی مرکز بنائی جا رہی ہے اس دور میں اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ پہلی بار ٹیلی کمیونیکیشن کے دروازے نجی شعبے کیلئے کھولے گئے، ملک میں پہلا فائبر آپٹک انفرا اسٹرکچر قائم کیا گیا،غازی بروتھا ہائیڈروپاور پروجیکٹ کی منظوری دی گئی، چین کیساتھ چشمہ نیوکلیئر پاور پروجیکٹ کا معاہدہ کیا گیا،لاہور اسلام آباد موٹر وے کی تعمیر کی گئی جبکہ اسی دور میں پشاور سے کراچی تک قومی شاہراہ کو دو رویہ کرنے کا کام شروع کیا گیا۔ بینکنگ اصلاحات کی گئیں اور روپے کی قدر میں مضبوطی آئی۔ صوبوں میں پانی کی تقسیم کا تاریخی معاہدہ کیا گیا۔ این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے چھوٹے صوبوں کو وسائل کی فراہمی ممکن ہوئی،ملکی تاریخ میں پہلی بار قومی ترقی کی شرح سات اعشاریہ سات فیصد تک پہنچی۔ جمہوریت کی ریل پٹری میں گامزن تھی لیکن پھر بم کو خود ہی لات مار دی گئی۔ مسلح افواج کے سربراہان، اعلی عدلیہ کے ججز کی تقرری اور اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اختیار اٹھاون ٹو بی پر صدر مملکت سے تنازع پیدا ہوا جس پر صدر غلام اسحٰق خان نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح نواز شریف حکومت کو بھی برطرف کر دیا۔ عدالت عظمیٰ نے حکومت بحال کر دی لیکن صرف تیسرا بجٹ پیش کرنے کی مہلت مل سکی جس کے بعد جولائی میں حکومت کو ایک بار پھر اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔
ساڑھے تین سال بعد عوام نے ایک بار پھر جناب نواز شریف کے سر پہ اقتدار کا ہما بٹھا دیا۔دو تہائی اکثریت کی بنا پر آئین میں تیرھویں ترمیم کر کے لا محدود اختیارات حاصل کر لئے گئے۔ توہین عدالت پر طلبی ہوئی تو عدالت عظمی کی دیواریں پھلانگ کر مطلق العنان ہونے کا پیغام دیا گیا۔ اسی دور میں پاکستان کو ایٹی قوت بنانے کا اعزاز حاصل کیا،گندم کی سرکاری قیمت میں چالیس فیصد تک اضافے کے اقدام سے ریکارڈ پیداوار حاصل ہوئی۔ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن جیسا جدید ادارہ قائم کیا گیا، کیپٹل مارکیٹ میں اصلاحات کا کام شروع کیا گیا،حکومتی کنٹرول میں چلنے والوں بنکوں کو خود مختاری دی گئی، وی آئی پیز کیلئے گاڑیوں کا درآمدی کوٹہ ختم کیا گیا، چونگی اور ضلع ٹیکس جیسے فرسودہ نظام کے خاتمے کا اعلان کیا گیا، نادرا جیسا فعال ادارہ قائم کیا گیا، 1998میں ملک میں آخری مردم شماری کرانے کا اہم کام بھی سر انجام دیا گیا، سب معمول کے مطابق چل رہا تھا لیکن ایک بار پھر برطرفی ہوئی۔ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے ماضی کی غلطیوں سے کسی حد تک سبق سیکھا اور میثاق جمہوریت کے ذریعے جمہوریت کی گاڑی کو پٹری پر گامزن رکھنے کیلئے کانٹے کا نظام اپنے ہاتھ میں رکھنے کے عہد و پیمان کر لئے جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے مسلم لیگ ن کے بھرپور ’’تعاون‘‘ کی بدولت جمہوری حکومت کے پانچ سال پورے کرنے کی تاریخ رقم کی۔ 2013ء کے عام انتخابات میں باری مسلم لیگ ن کو ملی لیکن پاکستان تحریک انصاف کی شکل میں تیسری قوت کو میدان میں اتار کر کھیل کے ضابطے تبدیل کر دئیے گئے۔ ماہر کھلاڑی کی طرح چالیں چلنے کی بجائے اناڑی کی پچ پر کھیلنے جیسی غلطی کی گئی اور انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے پھر آ بیل مجھے مار والی پالیسی اختیار کی گئی جس کے بعد دھرنے سے لے کر پاناما کی تحقیقات تک سب تاریخ کا حصہ بن چکا۔ نتیجہ وہی بے یقینی کی فضا اوراسی بات پر فخر کہ مسلسل پانچواں بجٹ پیش کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ ستر سال گزرگئے، پاکستان کے دو سال بعد وجود میں آنے والا چین دنیا پر حکومت کرنے کیلئے نیا ورلڈ آرڈر ترتیب دے رہا ہے اور ہمارے لئے آج بھی تاریخی کامیابی بس اتنی کہ مسلم لیگ ن کی کی منتخب جمہوری حکومت کے وزیر اعظم اور وزیر خزانہ مسلسل پانچویں بار بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ پاکستانی معیشت کو 2030تک دنیا کی 20بڑی معیشتوں میں شامل کرنے کا خواب دیکھنے والے وزیر خزانہ آج بھی ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو قومی اقتصادی پروگرام پر اتفاق رائے کیلئے میثاق معیشت پہ دستخط کرنے کی پیشکش کر رہے ہیں۔ وہ پانچواں بجٹ پیش کرنے کے باوجود آج بھی خوف زدہ ہیں کہ ان کی معاشی پالیسیوں کو کسی بھی وقت رول بیک کیا جا سکتا ہے،وہ آج بھی حکومت کی معاشی پالیسیوں کے خلاف اپوزیشن کے بھرپور احتجاج کو جمہوریت کا حسن نہیں سمجھتے،انہیں آج بھی یقین نہیں ہے کہ ان کی حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد پاکستان کا اقتصادی پروگرام انہی خطوط پر رواں رہیگا۔ ماضی کی پرچھائیوں کاخوف انہیں آج بھی مجبور کرتا ہے کہ وہ ایسے دس نکاتی اقتصادی ایجنڈے پر سب سیاسی جماعتوں سے مہر تصدیق ثبت کر الیں جس پرعمل درآمد کے سب پابند ہوں۔ یہ ماضی کا آسیب ہی ہے کہ سات دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی ہم یہ فخر کر رہے ہیں کہ منتخب جمہوری حکومت نے مسلسل پانچواں بجٹ پیش کر دیا لیکن ہمیں یہ فکر ہرگز نہیں ہے کہ آج بھی ہمارا بجٹ 1480ارب روپے خسارے کا ہے۔

.
تازہ ترین