• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی ایک مہینہ ہوا ہو گا، ایک عوامی ہوٹل میں چائے کی چسکیاں لے رہا تھا کہ ساتھ والی میز پر ہونے والی گفتگو نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ ’’اللہ کا شکر ہے بالآخر مسلمانوں کو عقل آ گئی‘‘ ایک باریش آدمی نے اپنی مہندی لگی سرخ داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو بتایا۔ ’’اتنی سی بات ہمارے حکمرانوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ دنیا کا سب سے بڑا کافر امریکہ نہیں چاہتا کہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق ہو۔ بھلا جو بات میں اور آپ جانتے ہیں وہ ہمارے حکمرانوں کو کیوں سمجھ نہیں آتی کہ اگر مسلمان اکٹھے ہو گئے تو وہ امریکہ کی چوہدراہٹ کا بینڈ بجا دیں گے لیکن اب اللہ کا شکر ہے کہ مسلمان ممالک اکٹھے ہو کر ایک اسلامی فوج بنا رہے ہیں اور جنرل راحیل شریف جب اس فوج کی سربراہی کرے گا تو امریکہ کی چولیں ہل جائیں گی، کفار کی نیندیں حرام ہو جائیں گی اور یہود و ہنود کو چھپنے کیلئے زمین نہیں ملے گی۔ میرا بھی پندرہ سال کا یونین کا تجربہ ہے جب ہماری مارکیٹ کے سارے دکاندار اکٹھے ہوں تو حکومت کی جرات نہیں ہے کہ کسی کو ٹیکس کا نوٹس بھیج دے‘‘۔ ’’واقعی لالہ، اب امریکہ کو مسلمانوں پر کئے جانے والے ظلم و استبداد کا حساب دینا پڑے گا‘‘، ایک دوسرا شخص جس نے ایک پھولدار چھلے میں لگی ہوئی گاڑی کی چابی اپنے سامنے رکھی ہوئی تھی، گویا ہوا۔ ’’کل ایک بابو ٹائپ سواری اٹھائی تھی آبپارہ سے، باتوں باتوں میں مسلمانوں کی فوج کا ذکر چھڑ گیا تو اس کی آنکھوں کی چمک دیکھنے والی تھی، کہنے لگا اب دیکھیں گے کشمیر کیسے آزاد نہیں ہوتا۔ کشمیر قراردادِ مذمت سے نہیں بلکہ بھارت کی مرمت سے ٹھیک ہوگا، کشمیر کی آزادی اب صرف ہماری ذمہ داری نہیں رہے گی بلکہ ساری مسلم امہ اب کشمیر آزاد کروائے گی۔ میں دل ہی دل میں بڑا خوش ہوا کہ شاید ہم اپنی زندگیوں میں کشمیر کو آزاد ہوتا دیکھ سکیں‘‘۔ اتنے میں ایک تیسرا شخص جو اپنی باری کیلئے بے چین نظر آرہا تھا، فورا بولا ’’باقی باتیں تو ٹھیک ہیں لیکن ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ ایٹم بم بنایا ہم نے اور اسلامی فوج کی سربراہی کرے سعودی عرب، کیا یہ زیادتی نہیں؟‘‘۔ ’’او بھائی صاب! پہلے ہی ہلے میں اسلامی فوج کی سربراہی تو ہمارے جنرل راحیل شریف کے حصے میں آ گئی ہے، تم دیکھتے جائو وہ کرتےکیا ہیں۔ ہر کوئی منہ اٹھا کر کہتا تھا، ڈیل کر لی، قوم کے ساتھ دھوکہ کر گئے۔۔۔‘‘ پینٹ شرٹ میں ملبوس کلین شیو ایک چوتھے شخص نے گفتگو میں اپنا حصہ ڈالا۔ اتنے میں میری چائے ختم ہو گئی اور میں نے اپنی راہ لی۔
چند روز پہلے عدالت میں کیس کا انتظار کر رہا تھا۔ جج صاحب ابھی نہیں آئے تھے، اور میں اپنی فائل کھنگال رہا تھا کہ اچانک ایک موٹی سی گالی کے بعد سنائی پڑا ’’بک گئے‘‘۔ میں نے گردن گھمائی تو پچھلی سیٹ پر دو شخص بڑے سنجیدہ اور رنجیدہ نظر آئے۔ میں ابھی اس کشمکش میں تھا کہ وہ موٹی سی گالی ان دونوں میں سے کس نے دی ہو گی کہ ان میں سے جو قدرے بڑی عمر کا تھا دوبارہ بولا ’’یہ کوئی بات ہے! جب میں چھوٹا تھا اور ہماری جماعت میں جب کبھی ہیڈ ماشٹر چھاپہ مارتا تھا تو استاد جی مجھے کہتے، او مانے! چل جلدی سے ساتھ والی جماعت سے کرسی لے کر آ اور پھر ہیڈ ماشٹر اور استاد جی کرسیاں لگا کر ہمارے سامنے بیٹھ جاتے اور ہماری خوب کلاس لیتے۔ سب سے بڑے کافر ٹرمپ کو تو ہیڈ ماشٹر بنا کر سامنے بٹھا دیا اور مسلمان ملکوں کے حکمران سامنے ایسے بیٹھے تھے جیسے ہم اپنی جماعت میں ٹاٹ پر بیٹھے ہوتے تھے۔ نواز شریف تو ان میں مجھے کہیں نظر بھی نہیں آ رہے تھے‘‘۔ دوسرے شخص نے لقمہ دیا، ’’استاد جی نے اپنی تقریر میں کہا کہ ایران دہشت گردی پھیلا رہا ہے اور ہیڈ ماشٹر کہنے لگا کہ بھارت دہشت گردی کا شکار ہے، مجھے تو لگتا ہے کہ اسلامی فوج والا سارا ٹوپی ڈرامہ ہے، اصل بات یہ ہے کہ امریکہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانا چاہتا ہے تاکہ وہ اس سے اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدتے رہیں‘‘۔ پہلے والا شخص دوبارہ بولا، ’’شکر ہے انہوں نے خود ہی ٹرمپ کو بلا لیا اور ہمارے جیسے ماتڑوں کو بھی اصل کھیل کا پتا چل گیا، پہلے شیعہ سنی فساد میں تھوڑے بندے مرے ہیں جو ہم ایک دفعہ پھر پرائی آگ سے گھر کو جلا ڈالیں‘‘ دوسرا شخص کہنے لگا، ’’یہ جو جنرل راحیل شریف کہتے تھے کہ سعودی عرب اور ایران میں صلح کرائیں گے، یہ تو کہیں نظر ہی نہیں آئے‘‘ پہلے والا حیرت بھرے لہجے میں بولا، ’’مجھے تو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اللہ نے انہیں ملک میں اتنی عزت دی، یہ وہاں کر کیا رہے ہیں؟‘‘ اتنے میں جج صاحب آ گئے اور عدالت میں خاموشی چھا گئی۔

.
تازہ ترین