• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت کو ایک نیا ہیرو مل گیا ہے بلکہ یوں کہیے کہ ایک جنگی ہیرو منصۂ شہود پہ آیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کے میجر لیتُل گوگوی پر چہار جانب سے تعریفوں کے ڈونگرے برسائے جارہے ہیں۔ ان کی اس مدح سرائی میں حاضر سروس جرنلوں سے لیکر ریٹائرڈ فوجیوں، کشمیریوں، مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف زہر اگلتے ہوئے نیوز اینکرز جو ملک کے ضمیر کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ کسی ممکنہ کج روی پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ درجنوں لکھاری جن کے فوج کے حق میں لکھے جانے والے اکثر آرٹیکل ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے لکھوائے جاتے ہیں تاکہ فوج کےحق میں ایک عمومی فضا قائم کی جاسکے۔ ہندوتو دہشت پسندوں کی حمایتی بھارت کی نفرت ساز میڈیا انڈسٹری میجر گوگوی کو ایک عزت مآب افسانوی کردار کے طور پر پیش کررہی ہے اوراب تو ہر کوئی بشمول سیاستدانوں اور فوجی جرنیلوں کے میجر گوگوی پر بچھا جارہا ہے۔ حیران کن طور پر میجر گوگوی کو اس دیومالائی بہادری کا سرٹیفکیٹ کسی دوسرے ملک کی ہم پلہ فوج یا دہشت گردوں کے خلاف نہیں بلکہ ایک کمزور اور عام کشمیری شہری کے ساتھ انتہائی درجے کی کمینگی اور جنگی جرائم کی بناء پر عطا کیا گیا۔
واقعے کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے9:اپریل کو میجر گوگوی بھارتی فوج کی 53راشٹریہ رائفلز کی ایک ٹکڑی کی کمان کرتے ہوئے وسطی کشمیر کے بڈگام ضلع میں گشت کررہے تھے۔ اس دوران انہوں نے ایک چھبیس سالہ شالباف فاروق احمد ڈار جو کہ تعزیت پرسی کیلئے کہیں جارہے تھے، کو اغوا کرلیا۔ میجر گوگوی نے داعش کے دہشت گردوں کے طرز پر فاروق احمد کو پہلے تو زبردست زدوکوب کیا اور پھر ایک فوجی ٹرک کے سامنے انسانی ڈھال کی صورت باندھ دیا۔ اس کے بعد انہوں نے فاروق کو پانچ گھنٹوں تک مختلف علاقوں میں گھمایا۔ فاروق احمد جو ابھی تک گہرے صدمے سے دوچار ہیں اور اس وجہ سے زیر علاج ہیں ،نےاخبار والوں کو بتایا کہ انہیں لگ بھگ تیس کلومیٹر کی مسافت تک کم از کم نو مختلف گاؤں میں گھمایا گیا۔ اس دوران انہوں نے فوجی اہلکاروں سے باربار پانی کی درخواست کی بلکہ انہوں نے یہ کہہ کر پانی دینے سے انکار کردیا کہ ’’یہاں نہیں بلکہ گھر جاکر پانی پیو‘‘۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارتی فوج نے کشمیریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا ہو۔ 1947ءسے مسلمانوں کے خلاف اس قسم کی کارروائیاں باربار کی گئیں بلکہ 1990ءسے جب سے آزادی کی تحریک کو عوامی پذیرائی مل گئی ایسی کارروائیاں تو آئے دن کا معمول بن گئی ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کے طول وعرض میں ایسی ہزاروں کہانیاں زبان زد عام ہیں جہاں فوج نے عام شہریوں حتیٰ کہ بچوں اور عورتوں کو بھی انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ مقبوضہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے ایک رکن انجینئر رشید نے گزشتہ سال ایک پریس کانفرنس کے دوران انکشاف کیا کہ بھارتی فوج نے کئی سالوں تک ان کے گاؤں کے لوگوں کو نہ صرف انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا بلکہ وہ ان سے زبردستی بیگار بھی لیتے رہے۔
میجر گوگوی کا کارنامہ اس وجہ سے منفرد ہے کہ اس کو موبائل فون کے ذریعے عکس بند کیاگیا جو پھر سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل ہوگیا - بھارتی فوج کے سابق سربراہ جنرل وی پی ملک نےاس پر ٹویٹ کے ذریعے تبصرہ کرتے ہوئے اس کو پیشہ وارانہ بداعمالی کی واحد ایسی مثال قرار دیا۔ اس کے جواب میں سری نگر کے رہائشی فواد فاروق نے لکھا:’’بھارتی فوج کی طرف سے کشمیریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ایک نئی بات ہے کہ ایسے کسی واقعے کو عکس بند کیا گیا ہو‘‘۔
میجر گوگوی کی یہ 'انسانی ڈھال ’’والی 'بہادری‘‘ اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ اس کی اس مجرمانہ حرکت کو نہ صرف یہ کہ فوج تحفظ دے رہی ہے بلکہ اس مجرمانہ رویے کی کھلے عام پذیرائی بھی کرتی نظر آرہی ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے گوگوی کو 'دہشت گردی کے خلاف خدمات’’ کے صلے میں ایک 'ستائشی کارڈ‘‘ سے نوازا۔ ایک بے نام سابقہ جنرل نے ایک بھارتی ویب سائٹ کو بتایا کہ ’’یہ ایوارڈ ایک دکھاوا ہے جو کسی فوجی ایکشن کے اعتراف کے بجائے ملک میں جاری شدت پسندی کی ہوا کو جاری رکھنے کیلئے دیا گیا۔ مگر فوج کے ایک اور سابق سربراہ جرنیل این سی وِج نے اس کو ایک قابل ذکر اقدام قرار دےکر موجودہ فوجی سربراہ کی تعریف کی کیونکہ یہ اقدام ’’فوج کے جوانوں کے عزم اور حوصلے کو جلا بخشے گا‘‘۔ اب تازہ ترین خبر ہے کہ آرمی چیف جنرل راوت نے میجر گوگوی کو ان کے خلاف ہونے والی انکوائری کا انتظار کئے بغیرہی ان کو بے گناہ قرار دیدیا۔ راوت کے ایک بیان کے بموجب گوگوی نے کوئی جرم ہی نہیں کیا۔ اس کے جواب میں انسانی ڈھال بنائے جانے والے فاروق احمد ڈار کا کہنا تھا:’’کشمیر میں ہزاروں لوگ انصاف کی تلاش میں دربدر پھر رہے ہیں۔ دیگر کشمیریوں کی طرح مجھے بھی یہاں کے نظام سے انصاف کی کوئی توقع نہیں ہے‘‘۔
بھارتی آرمی چیف کی جانب سے اپنے فوجی افسر کی مجرمانہ کارکردگی کی طرفداری کے فوراَ بعد بھارتی وزیر دفاع ارون جیٹلی کا بیان بھی آگیا جس میں انہوں نے کشمیر کو جنگ زدہ علاقہ قرار دیتے ہوئے فوجی جوانوں کو حالات سے نمٹنے کی کھلی چھوٹ دیدی۔ بھارتی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق جیٹلی کے بیان سے گوگوی کی انسانی ڈھال بنانے کے عمل کی دبے لفظوں میں تائید جھلک رہی تھی۔
پس نوشت:
میجر گوگوی کو 'ستائشی کارڈملنے پر سری نگر کے ایک اسکن سپیشلسٹ میر لئیق نے تبصرہ کرتے ہوئے فیس بک پر لکھا:’’فوجیں عموماًاپنے جنگی جرائم کی تشہیر نہیں کرتیں اِلاّ کہ ان کا کھلے عام دفاع بھی کرتی پھریں۔ اگر وہ ایسا کرنے لگیں تو یہ ایک قسم کی ناکامی، دست برداری اور جلد رخصتی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ یہ ہے کشمیر میں بھارتی فوج کی کہانی جس کو کشمیر میں شکست ہوچکی ہے جو اندر سے کھوکھلی ہوچکی ہے اور اب ایک دھانچے کی صورت خوف تو پیدا کرسکتی ہے مگر جنگ نہیں جیت سکتی۔ انہیں عنقریب اپنا سامان لاد کر یہاں سے جانا پڑے گا‘‘۔
اس صورتحال پر وادی کے ایک مؤقر انگریزی روزنامہ گریٹر کشمیر کے سینئر ایڈیٹر ہلال میر نے یوں تبصرہ کیا: ’’جب بارہ لاکھ کی طاقتور فوج بزدلی کا انعام دینا شروع کردے تو یہ پہلے ہی شکست کا اعتراف ہے‘‘۔
ضمیمہ:
میجر گوگوی کی 'بہادری صرف کشمیری عوام کو انسانی ڈھال بنانے تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ وہ ہاتھ کی صفائی میں بھی ملکہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے انسانی ڈھال بنانے والے فاروق احمد ڈار کا موبائل بھی چرالیا۔ جب ڈار سے گوگوی کو ملنے والے انعام کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ گوگوی ان کا چرایا ہوا انڈین برانڈ کا فون واپس کریں۔
میجر گوگوی کی اس بہادری پر ابھی تک بھارتی آرمی یا میڈیا پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا بلکہ سب کو چپ لگی ہوئی ہے۔

.
تازہ ترین