• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دھماکے کی آواز کے ساتھ ہی موقع پر موجو د افراد بھاگ کر سب سے پہلے کسی محفوظ پناہ گا کو ڈھونڈتے ہیں، کچھ کامیاب ہوجاتے ہیںکچھ دنیا سے ہی بیگانے ہوجاتے ہیں ان کو اتنا موقع ہی نہیں مل پاتا کہ جان بچا کر بھاگ سکیں ۔ اور پھر بس وہی اپنوں کی تلاش، خون کے دھبے محرکات اور مجرم کی تلاش ۔برطانیہ میں تو مجرم بھی مل جاتا ہے اور اس کارروائی کے پیچھے اس کا مقصد بھی معلوم ہوجاتا ہے ۔لندن کے بعد مانچسٹر حملے میں بھی ادھر دھماکہ ہوا ادھر چند ہی گھنٹوں میں مجرم بھی پکڑا گیا ،دکھ کی بات یہ ہے کہ مسلمان ہی نکلا ۔ یہ تو خیرروایت بن گئی ہے ۔ اس پر بحث کریں یا نہیں کوئی فائدہ نہیں لیکن عالمی قوتیں اس سے انکار نہیں کر سکتیں کہ شام لیبیا اور مشرق وسطی اور مغربی ایشیا ئی ممالک میں جوخون ریزیاں اور خانہ جنگی کی وجہ سے افراتفری کاعالم ہے اس نے پورے علاقے ہی نہیں بلکہ یورپ سے لے کر آسٹریلیا تک کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔شام میں جب خانہ جنگی بڑھ رہی تھی وہاں فرقہ واریت کو ہو ادی جارہی تھی ۔وہاںدہشت گردی اور شدت پسندی کو علاقائی برتری اوردوسرے ناموں سے نظر اندازکیا جارہا تھا تو اسی وقت حالات پر نظر رکھنے والے ان بدترین اندیشوں کاذکر کر رہے تھے جو اب ایک خون ریز حقیقت بن کر سامنے آچکے ہیں جن پرقابو پانے کے ہر طریقے کو ناکام ہی ہوتا دیکھا جارہا ہے۔خود مغربی ممالک کے تجزیہ نگار اور اہل فکر بڑی پرزور اور دردمندانہ طریقوں سے اپیلیں کرتے تھے کہ اسکو روکا جائے لیکن بڑی طاقتیں اور عالمی ادارے صرف انسانی ہمدردی کی کارروائیوں تک محدود ہوکر رہ گئے ۔کوئی بھی جرات مندانہ کردار اپنانے کو تیار نہ تھا۔مسلمان اپنی امریکا اور مغرب کی ماضی کی نفرت کے قصوں سے انہیں بے عمل کئے دے رہے تھے اور مغرب اور عالمی طاقتیں اپنے مفادات کا بہانہ ڈھونڈ کر عالمی ذمہ داریوں سے مبرا۔تو پھر لاکھوں کی ہلاکتوں اورکروڑوں کی بے گھری ۔ملک کے ملک تباہ ہونا آخر کسی طور تو رنگ لاتے۔اب مسلم دنیا تباہی سے نڈھال اور مغربی دنیا ، روس و چین دہشت کے خوف سے سمٹے جارہے ہیں۔ علاقائی جنگیں ان بڑے اور ترقی والے ملکوں کو لپیٹ میں لیتے لیتے اس حد تک انددر اخل ہوچکی ہیں کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب ان کی اپنی عوام خود کو اس طرح غیر محفوظ محسوس کرنے لگے گی کہ اپنے اپنے ملکوں کے حکمرانوں کے سامنے یہ سوال لے کر کھڑی ہوجائے کہ کب تک یہی کہتے رہو گے کہ سیکورٹی بڑھا دی گئی اب مزید حملے نہیں ہونگے ۔کیونکہ حا لات اس حد تک تو چلے گئے ہیں جہا ں تفریحی مقامات و سڑکیں اوربازارتک غیر محفوظ ہونے لگے ہیں۔ مغربی ملکوں کے کئی شہر اب مارشل لاء کا منظرپیش کرتے ہیں۔ہر طرف فوج اور سیکورٹی ،کیا یہی آزاد معاشرہ ہے۔ کبھی کوئی گاڑی اچانک وارد ہو کر لوگوں کو روند ڈالتی ہے تو کبھی کنسرٹ انجوائے کرتے نوجوان کسی خود کش حملہ آور کے نشانے پر ہوتے ہیں۔ خدانخواستہ ایسا نہ ہو نے لگے کہ گھروں کے باہر ایسے حملہ آور خود کو اڑانے لگیں تو پھر تو ان ممالک میں بنا خانہ جنگی کے ہی تباہی کا سماں ہوگا ۔ابھی تک تو ہر واقعہ کا رخ مسلمان مسلمان کہہ کر لوگوں کی توجہ ہٹا دی جاتی ہے لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک چلنا مشکل ہے ۔ تارکین سے ویسے ہی یورپ ناراض ہے برطانیہ فرانس جو ان حملوں کی زد میںہے ان کی عوام کے اندر ایک ابال تو بن رہا ہوگا کہ کیوں ہمارے سکون کو کوئی باہر والا اندر بیٹھ کر تباہ کرنے پر تلا ہے۔ بظاہرہم کسی کا کیا کر رہے ہیں۔ہماری زندگی ہمارے کام، ہم نہ کسی کے لینے میں نہ دینے میں ۔یہ حقیقت ہے برطانیہ میں رہتے ہوئے میں نے گورے کو کسی کی زندگی میں خاص مداخلت کرتے نہیں دیکھا ہے ۔سب اپنے اپنے کام میں لگے نظر آتے ہیں لیکن جب کچھ کچھ وقفے کے بعد کسی دھماکے کا شور اٹھتا ہے تب یہاں کی عوام ہلتی ہے لیکن پھر واپس اپنے کام میں لگ جاتی ہے پھر کچھ اور ہوجاتا ہے ۔یہ کوئی اچھی بات نہیں تسلیوں کا دور گزر گیا ۔ یہ جمہوری ملک ہے عوام جب زیادہ پریشان ہوجاتی ہے تو پھر اٹھ کھڑی ہوتی ہے ۔ اگر ان ممالک کی عوام نے بھی ٹھا ن لیا اور تہیہ کرلیا کہ بس بہت ہوا اب مزیددھماکے نہیں چاہیے ۔ پھر حکومتوں کو معاملات صرف انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے یہ خبر پھیلا کر سنبھالنا آسان نہیں ہوگا کہ یہ مسلمان ہے جو کسی بے نام تنظیم کے ہتھے چڑھ کر یہ سب کر رہا ہے ۔ کب تک یہی بہانے کام آئینگے کبھی تو عوام بھی سوچے گی کہ اتنا مضبوط ملک اتنی ا نٹیلی جنس ایجنسیا ں مٹھی بھر افراد کو نہیںپکڑپا رہی ۔ ہر واقعے کے بعد یہ کہ کر اپنی قابلیت جھاڑدی جاتی ہے کہ مذکورہ حملہ آور پہلے سے ہی ایجنسیو ںکی نظر میں تھا ۔ارے اگر پہلے سے اس پر نظر تھی تو اس کو یہ موقع ہی کیوں دیا گیا کہ و ہ با قاعدہ منصوبہ بندی کرکے ہزاروں لوگوں کو با آسانی اپنے نشانے پر ر کھ لیتا ہے ۔انسانی خاصیت ہے کہ سہتاہے تو بس سہتا ہی رہتا ہے لیکن جب سہنے کی برداشت کی حدختم ہوجاتی ہے تو پھر کچھ بھی کر گزرنے سے گریز نہیں کرتا ۔ ہم سوچ سکتے ہیں کہ برطانیہ اور یورپ کی عوام کی برداشت بھی کس حدتک جاسکتی ہے ۔لیکن کیا کوئی ان لوگوں کو یہ بتائے گا کہ عالمی طاقت ہونے کا مطلب امن کی ذمہ داری ہے۔یہ مسلم ملکوں کے لئے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا مغربی ملکوں اور دیگر ممالک کے لئے ہے دنیا دہشت اور شدت کے مسئلے پر اپنے نظریات اور مفادات سے بلند ہوکر اس کو جڑ سے اکھاڑنے کا کیا تہیہ کر سکتی ہے؟لیکن پہلے جڑ کہاں ہے اس کو تو دیکھ لیا جائے ۔وقت آ گیاہے کہ شام کے معاملے کو اب عوامی امنگوں کے مطابق بین الاقوامی نگرانی میں طے کرا دیا جائے۔ ظالم سے حساب لیا جائے اور مظلوموں کو واپس گھر ،چھت اور دانہ پانی فراہم کر دیا جائے۔


.
تازہ ترین