• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میوزیکل شہر مانچسٹر اور ماتم کدہ گل و خار … سیمسن جاوید

مانچسٹرایرنیا میں ہونے والا خود کش حملہ انگلینڈ میں ہونے والا یہ چوتھا بڑا حملہ تھا۔جس میں کم از کم 22 نوجوان لڑکے لڑکیاںہلاک اور 60 کے قریب زخمی ہوئے جن میںاکثریت لڑکیوں کی ہے اورایک آٹھ سالہ کمسن بچی بھی شامل ہے۔امریکہ کی مشہور نوجوان گلوکارہ کا مانچسٹر ایرینا ہال میںکنسرٹ ہونے والا تھا۔ اس کنسرٹ کی ٹکٹیں جوتقریباً بک چکی تھیں ۔ ٹکٹ خریدنے والوں کی ہر روز ایک لمبی قطار لگی ہوتی تھی ۔بڑی تگ و دوکے بعد ٹکٹ حاصل کرنے والا خوشی کے مارے ٹکٹ کو ہوا میں ایسے لہراتا جیسے اْسے قارون کا خزانہ مل گیا ہو ۔ کئی والدین نے اپنے بچوں کو کنسرٹ کی ٹکٹ کرسمس یا ایسٹر کے تحفے میں دی تھی۔ انہیں کیا خبر تھی کہ یہی ٹکٹ ان کے لختِ جگر کی موت کے بھیانک سفر کی طرف روانگی کا سبب بن جائیگی ۔وہ نہیں جانتے تھے کہ ایسے درندہ صفت انسان پورے شہر میں صف ماتم بچھا کربہت سے والدین کو ان کی اولاد سے محروم کردیں گے ۔کنسرٹ میںامریکی گلوکارہ آیرنیا گریٹ کی خوبصورت آواز اور جوشیلے گیتوں سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہال میں موجود کئی فلمی ایکڑیس اور تمام حاضرین نے مل کر آخری گیت گایا۔اور پْر مسرت محفل کو چھوڑ کرگھروں کو روانہ ہونے کے لئے ہال سے باہر نکلنے لگے۔ باہربہت سے والدین اور کیب والے انہیں گھر پہنچانے کے لئے انتظار کررہے تھے کہ دروازے پر خود کش حملہ آور نے خود کو اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے ہوئے بم سے اڑا لیا اور گزرے ہوئے ان حسین یاد گار لمحوں کو موت میں بدل دیا ۔پل بھر میںمعصوم بچوں کے پرخچے اڑ گئے اورہر طرف خون اور انسانی عضابکھر گئے۔بھاگ دوڑاور چیخ و پکار نے ہنستے کھیلتے منظر کو قیامت میں بدل دیا ۔ کمیونٹی نے اس سانحہ کے موقعہ پر اپنا بے مثال کردار ادا کیا۔کیب میں منتظر ڈرائیور حادثے کی طرف بڑھے اور زخموں کی مدد کرنے لگے اور انہیں ہسپتال پہنچانے لگے۔ ایک لڑکی کو،جس کی دونوں ٹانگیں خود کش دھماکے میںضائع ہوگئی تھی ،اسے ایک شخص نے اس وقت تک اپنی گود میں سنبھالے رکھا جب تک ایمبولنس وہاں نہیں پہنچ گئی۔جہاں موقع پر موجود لوگوں نے یکجہتی اور ہمدردی کا مظاہرہ کیا،وہاں رات دیر تک کھلے ہوٹلوں نے اپنے دروازے تمام لوگوں کے لئے کھول دیئے اور انہیں مفت کافی، چائے ، مشربات اور کھانا مہیا کیا۔ایسے میں پولیس، ایمبولینس اور امدادی ٹیمیں بھی وہاں پہنچ گئیں۔ اس اندوہناک سانحہ کی پوری دنیا نے شدید مذمت کی ہے۔یاد رہے کہ برطانیہ میںساری دنیا سے مختلف مذاہب اور کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں ۔اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے جنگ و جدل اور انسانی حقوق کی پامالی اور مذہبی استحصال کی بنیادوں پر برطانیہ میں پناہ لے رکھی ہے۔ مانچسٹرارینا پر خودکش حملہ کرنے والا 22سالہ بمبار سلمان عبیدکے والدین کا تعلق لیبیاسے ہے اور انہوں نے انگلینڈ میں سیاسی پناہ حاصل کی ہوئی ہے۔ سلمان عبید مانچسٹرمیں پیداہوا۔ یہیں پہ تعلیم حاصل کی۔ خود کش حملہ کرنے کی وجہ یہ پیش کرنا کہ وہ ذہنی مریض تھا یا اْس کے دوست کو یہاں قتل کر دیا گیا تھااور یہی اس کے بدلہ لینے کی وجہ بن گئی۔یہ کہنا بالکل غلط ہے۔بلکہ داعش کا طریقہ کار ہی کچھ ایسا ہوتاہے کہ وہ نوجوانوں کا آسانی سے برین واش کرلیتا ہے ۔ پاکستان ہو یا کوئی اورملک، خصوصاً یورپ میں سب پڑے لکھے جوبرائے راست یا ہجرت کرکے آنے والوں میں شامل ہیں۔یہی اپنی ذہانت کو استعمال کرکے انسانی خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔یاد رہے کہ برطانیہ پہلی بار2005 میں خود کش حملہ آوروں سے نبرد آزما ہوا۔جب لندن ٹرانسپورٹ پر ہونے والے سلسلہ وار بم حملوں میں چار خود کش حملہ آوروں نے حصہ لیا تھا۔ برطانوی پولیس کے مطابق ان حملہ صدیق خان کو لندن حملوں کا سرغنہ تصور کیا جاتا ہے۔جولیڈز میں پیدا ہوا تھا اور اس نے لندن کے ایجویئر روڈ سٹیشن پر سرکل لائن پر خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا تھا جس میں حملہ آور سمیت سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔خود کش حملہ آوروں میں سے ایک تنویر شہزاد بریڈ فورڈ میں پیدا ہونے والا جو سپورٹس سائنس میں گریجویٹ تھا۔ سرکل لائن پر آلگیٹ اور لیور پول سٹیشن کے درمیان خود کو دھماکہ سے اڑا لیا تھا۔ اس حملے میں سات افراد ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔لندن کا ایک اور خود کش حملہ آور حسیب حسین تھا جو لیڈز کے علاقے ہی میں پیدا ہوااوروہیں اپنے والدین کے ہمراہ رہائش پذیر تھا۔ تنویر شہزاد کا بہت قریبی دوست تھا۔ حسیب حسین کی عمر بیس سال سے کم تھی ۔لندن کے چوتھے خود کش حملہ آور جرمین لنڈزے تھا۔ جرمین لنڈزے واحد خود کش حملہ آور تھا جو جمیکا میں پیدا ہوا۔اسکی ماں نے دوسری شادی کر لی تھی اور 1986میں برطانیہ شفٹ ہو گئے۔اسکا سوتیلا باپ ایک سخت آدمی تھا جسکی پرورش میں وہ پلا بڑھا۔ 2000 میں اس نے اسلام قبول کر لیا اور اپنا نام جمال رکھ لیا۔ جرمین لنڈزے نے ویسٹ یارکشائر کے علاقے ہڈرزفیلڈ میں پرورش پائی جہاں اس کی ملاقات لندن حملہ آوروں کے مبینہ سرغنہ صدیق خان سے ہوئی تھی۔لندن میں خود کش حملوں کے بعد دہشت گردی کا بڑا واقعہ 30 جون 2007 کو سکاٹ لینڈ میں ہوا جہاں دو حملوں آوروں نے پروپین کے ڈبوں سے بھری گاڑی کو گلاسگو ایئرپورٹ میں گھسانے کی کوشش کی۔ اس حملے میں دونوں حملہ آور اپنے مقصد میں کامیاب تو نہ ہو سکے لیکن ایک حملہ آور گاڑی کے جلنے کی وجہ سے ہلاک ہو گیا تھا۔ دوسرا حملہ آور زندہ پکڑا گیا اور اب بھی برطانیہ کی جیل میں عمر قید کاٹ رہا ہے۔پولیس کے مطابق دونوں حملہ آور بلال احمد اور خالد احمد خود کش حملہ آور تھے۔ دونوں حملہ آور انتہائی تعلیم یافتہ تھے۔ بلال احمد ڈاکٹر تھا جبکہ خالد احمد کوالیفائیڈ انجینئرتھا۔ایسے سانحہ میں ملوث خودکش بمباروں کی حمایت میں مختلف جواز پیش کرنا سریع اوردرست نہیں،جو مجرم کو مجرم قرار نہیں دیتا وہ بھی مجرم کا حصہ دار بن جاتا ہے۔مذہب کوئی بھی ہو۔انسانوں سے پیار و محبت کا درس دیتا ہے اور کسی بھی حال میںبیگناہ انسانوں کاخون بہانہ گناہِ کبیرہ قرار دیتا ہے۔مذہب ظاہری لباس سے نہیں بلکہ اپنی سوچ وفکرا ور عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔ ہمیں ہر حال میں مذہبی شدت پسندی کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی اور ایسے عناصر کا راستہ روکنا ہوگا جو معاشرے کو منافرت اور عدم برداشت کی طرف لے جا رہے ہیں۔اس میں بڑے قصور وار وہ مذہبی رہنماہیںجو ان وحشیانہ واقعات اور بے گناہ انسانی خون بہانے والوںکی مذمت نہیں کرتے اور ان خودکش بمبار کی وجہ سے ان کے ہم مذہب کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔


.
تازہ ترین