• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ہاں خدمت کی سیاست کا نعرہ بڑھ چڑھ کر لگایا جاتا ہے لیکن اگر آپ اس کی عملی تعبیر دیکھیں تو احساس ہو گا کہ ہماری سیاست کو خدمت سے فقط اتنا سا تعلق ہے کہ دونوں الفاظ کے آخر میں ’’ت‘‘ آتا ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ درحقیقت سیاست میں سچی خدمت ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ خدمت کے لئے بے لوث جذبہ، اخلاص، ایثار وغیرہ جیسی شرائط درکار ہیں جبکہ سیاست اقتدار کا کھیل ہوتا ہے اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے ووٹوں، زندہ بادیوں اور درباریوں کی ضرورت ہوتی ہے چنانچہ اس سیاسی عمل میں خدمت کا مرغا حرام ہو جاتا ہے اور باقی صرف سیاست رہ جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ جس خدمت سے غرض وابستہ ہو جائے وہ خدمت نہیں بلکہ صرف سیاست بن جاتی ہے۔ اس وقت ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں میں خدمت کی سیاست کے سب سے بڑے دعویدار جناب شہباز شریف صاحب ہیں جو اپنے آپ کو خادم اعلیٰ کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ انہیں وزیر اعلیٰ کے لفظ سے اس قدر ’’نفرت‘‘ ہے کہ وہ اربوں روپوں کے اشتہارات خود کو خادم اعلیٰ ثابت کرنے کے لئے دیتے ہیں۔ ان اشتہارات سے عوام کی کیا خدمت ہوتی ہے؟ شاید اس کا اُنہیں احساس نہیں۔ سروے کروا کر دیکھ لیں کہ کتنے لوگ ان اشتہارات کو پڑھتے ہیں؟ غربت، مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کے مارے عوام تو اخبار ہی نہیں پڑھتے البتہ درمیانہ طبقہ اور اشرافیہ ضرور اخبارات خریدتے ہیں لیکن اشتہارات کتنے فیصد لوگ پڑھتے ہیں بمشکل پانچ چھ فیصد۔ ان بے تحاشا اشتہارات سے عوام کی کیا خدمت ہوتی ہے؟ ان اشتہارات سے کتنے خاندانوں کا پیٹ بھرتا ہے، کتنے گھروں میں بجلی آتی ہے اور کتنے مزدوروں کو مزدوری ملتی ہے یہ سوچنا خادموں کا دردسر نہیں کیونکہ وہ اپنی پبلسٹی کے سحر میں گرفتار ہیں اور اربوں روپے خزانے سے لٹائے جا رہے ہیں۔ آج اخبارات میں نو ارب روپے کے رمضان پیکیج کا کروڑوں روپوں کا اشتہار دیکھ کر میں سوچنے لگا کہ اگر خادم اعلیٰ یہ کروڑوں روپے بھی اپنی تصویر چھپوانے کی بجائے غرباء کو راشن کے تھیلے بہم پہنچانے پر صرف کر دیتے تو اس سے یقیناً لاکھوں لوگوں کو ایک ماہ کا راشن مل جاتا اور وہ رمضان کے مبارک مہینے میں خادم اعلیٰ کو دعائوں کے پھول پیش کرتے۔ سیاسی حوالے سے دیکھا جائے تو وہ خادم اعلیٰ کے پکے ووٹر بن جاتے۔
میں ذاتی طور پر میاں شہباز شریف کے جذبے کا معترف ہوں اور ان کی اسپیڈ (تیز رفتاری) کا بھی شاہد ہوں اگرچہ اکثر اوقات یہ اسپیڈ الٹی پڑتی ہے اور فائدے کی بجائے بوجھ بن جاتی ہے۔ اب تو سنا ہے کہ چین میں بھی شہباز اسپیڈ کے بڑے چرچے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ خبر ہمیں پاکستانی اخبارات کے ذریعے پہنچی ہے، ہم نے خود چین جا کر اس کی تصدیق نہیں کی۔ ہمیں تو اُن کی اسپیڈ کا صرف اتنا سا تجربہ ہے کہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران لوڈشیڈنگ چھ ماہ، پھر ایک سال میں ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا اور ناکامی کی صورت میں اپنا نام بدلنے کا یقین دلایا تھا۔ لوڈشیڈنگ بد سے بدتر ہو رہی ہے اور چار سال بھی گزر چکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ صاحب نے شاید اسی لئے اپنا نام تبدیل کر کے خادم اعلیٰ رکھ لیا ہے تاکہ اپنا وعدہ پورا کر سکیں۔ چنانچہ اب صورت یہ ہے کہ جس دن کسی بجلی پروجیکٹ کا افتتاح ہوتا ہے اور حکومت اربوں روپے کے اشتہارات دے کر یہ پیغام دیتی ہے کہ اتنے سو میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہو گئی ہے اُس دن میں مزید لوڈشیڈنگ کے خوف سے پریشان ہو جاتا ہوں۔ رہے اگلے سال لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے وعدے تو وہ بھی وعدہ ’’حور‘‘ ہی لگتے ہیں کیونکہ وعدہ اور سبز باغ دکھانا ہماری سیاست کا سب سے بڑا سانحہ ہے جس کے قتل کا خون بھی نظر نہیں آتا۔ کہتے ہیں کہ دو سو ارب روپوں کے لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی بجائے دو فیکٹریاں لگا کر لیپ ٹاپ بنائے جا سکتے تھے لیکن مشکل یہ ہے کہ ایسی فیکٹریاں لگ نہیں سکتیں۔ البتہ حکومت نے ان فیکٹریوں سے جو گھٹیا کوالٹی کے لیپ ٹاپ بنوائے ہیں انہیں طلبہ ’’ٹھیکرا‘‘ کہتے ہیں اور ان کی بڑی تعداد سستے داموں مارکیٹ میں فروخت ہو جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں پنجاب یونیورسٹی میں لیپ ٹاپ تقسیم کئے گئے تو کچھ طلبہ نے مجھے موبائل پر پیغام بھیجے۔ انہوں نے ان لیپ ٹاپس کو ’’ٹھیکرا‘‘ قرار دیا اور لکھا کہ وائس چانسلر، ڈین اور اساتذہ کے جاتے ہی طلبہ نے گو نواز گو کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ بہرحال میں پھر بھی گزشتہ چھ سات برسوں سے ان لیپ ٹاپس کے ذریعے آئی ٹی انقلاب کے انتظار میں بیٹھا ہوں اور اڈیاں چک چک کر انقلاب کی راہ دیکھ رہا ہوں۔ ٹھنڈے دل کا تجزیہ بتایا ہے کہ یہ انقلاب لانے نہیں بلکہ ووٹ پکے کرنے کا طریقہ واردات ہے۔ مطلب یہ خدمت نہیں، سیاست ہے۔ یہ تو دیگ کا فقط ایک دانہ ہے ورنہ جس پروجیکٹ کو بھی ہاتھ لگائیں، اندر سے تیز رفتاری برآمد ہوتی ہے اور معیار کا خون بہتا نظر آتا ہے۔ قائد اعظم سولر پروجیکٹ پر اربوں روپے لگا کر اس کی تشہیر اور افتتاح پر کروڑوں روپے بہا دیئے گئے۔ قوم کو سو میگاواٹ کی خوشخبری اور کم وقت میں تکمیل کی قوالیاں سنائی گئیں۔ اب تک یہ پروجیکٹ 8یا 9میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا نہیں کر سکا اور اب اسے اونے پونے فروخت کرنے کے منصوبے بن رہے ہیں۔ چند روز قبل ساہی وال تھرمل پلانٹ کا افتتاح کرتے ہوئے کم ترین عرصے میں تکمیل کی کرامت کے چرچے ہوئے لیکن بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ استعمال شدہ یعنی سکینڈ ہینڈ پلانٹ چین سے خریدا گیا ہے اور اس کے لئے 4.48ملین ٹن کوئلہ انڈونیشیا اور سائوتھ افریقہ سے درآمد کر کے کراچی کے راستے بذریعہ ریل ساہی وال پہنچایا جائے گا۔ اس فیلڈ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ درآمدی کوئلے پر پلانٹ چلانا بیوقوفی ہے۔ اس پلانٹ کو ملکی کوئلے پر چلانے کے لئے ڈیزائن کیا جانا چاہئے تھا۔ درآمدی کوئلے کی بے پناہ قیمت اور پھر اسے ریل کے ذریعے ساہی وال پہنچانا قومی مفاد میں نہیں کیونکہ ریلوے کا نظام شاید اس ذمہ داری کا متحمل نہ ہو سکے۔ سیکنڈ ہینڈ پلانٹ ہےوقتاً فوقتاً خرابی کا شکار ہو گا۔ تھرمل پلانٹ سے فضا میں آلودگی بیماریوں کا سبب بنے گی اور اس آلودگی کو کم کرنے کے لئے جتنے درخت لگانے کی ضرورت تھی اسے تیز رفتاری کے شوق نے پورا نہیں ہونے دیا۔ محکمہ ماحولیات پریشان ہے اور خاموش تماشائی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی بیماریاں پھیلائے گی اور پھر خادم اعلیٰ اسپتالوں کا معائنہ کرنے جائیں گے۔ وہ اسپتال جن کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ کالم کا تنگ دامن تیز رفتاری کی بہت سی کرامات کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لئے باقی پھر کبھی۔



.
تازہ ترین