• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
درویش ایک مدت سے اپنی گوشہ نشینی میں مطمئن ہے۔ اچھی خاصی طویل زندگی گزار لی۔ بہت سی دنیا دیکھی۔ اچھے انسانوں سے واسطہ پڑا۔ خوباں کی صحبتوں میں ایسا لطف اٹھایا کہ جی جانتا ہے۔ کتاب، موسیقی، تصویر اور رقص کا ذوق ودیعت ہوا۔ بارش کی بوند اور گھاس کی پتی سے خوشی کشید کی۔ علم کا درجہ تو خیر نصیب نہیں ہو سکا لیکن اس جستجو میں انکسار کی دولت ہاتھ آئی۔ معلوم ہو گیا کہ علم کی طلب ہی علم کا آخری امکان ہے، اس سے زیادہ ممکن نہیں۔ زندگی ایسی مہربان رہی کہ تعصب جیسی ذلت سے واسطہ نہیں پڑا۔ حسب نسب، جنس اور زبان کی بنیاد پر کسی کو کمتر جاننے کا خیال ہی جاتا رہا۔ دولت، منصب اور اختیار سے مرعوب ہونا بھول گیا۔ زیست ایسی نسیم کے جھونکے جیسی سبک گزرے تو کیا تعجب کہ مزاج میں تشکر کا وفور ہو۔ جو مل گیا، فالحمدللہ علی ذالک… جو نہیں مل سکا، اس کا شکوہ بے معنی ٹھہرا۔ ایک فرمائش البتہ احباب سے کبھی کبھی کرتا ہوں کہ چھوٹے بچوں سے ملوائیں۔ بے اختیار ہنستے ہوئے معصوم بچوں کے ساتھ کھیلنے سے موت کا خوف ختم ہو جاتا ہے۔ جس دنیا میں ننھے مہمان ابھی کھلکھلا رہے ہوں، اس سے بچھڑنے کا دھڑکا کیسا؟ ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا۔ عام مجلسوں سے گریز کرتا ہوں کہ ناگاہ کوئی بدمزگی کا زاویہ برآمد ہو۔ تلخی سے مگر کسے رستگاری ہے۔ کل صبح ایک ہوٹل کی بالکونی میں بیٹھا اخبار دیکھتا تھا کہ ایک غیرملکی سے ملاقات ہوگئی۔ اچھا خاصا گرانڈیل تن و توش، لباس اور متعلقات میں نفاست تو خیر، دولت کی نمائش موجود تھی۔ یوں تو خاصے کروفر میں تھے لیکن نامعلوم کیوں اس فقیر کی میز پر آن بیٹھے۔ میں تو جانوں، عالم مساکین کے ایک باسی سے خوش فعلی پر مائل تھے۔ چھوٹتے ہی اپنے وطن مالوف کی تعریف میں کچھ ایسی بے ڈھب کہی کہ درویش کو جلال آ گیا۔ سوچ لیا کہ آج کچھ گھڑی کو عجز اور عجز بیان سے ہاتھ کھینچ لیا جائے۔ ذرا عزت مآب کی خیریت دریافت کی جائے۔ کچھ اپنے وطن کا تعارف ہو جائے۔ یوں دیس میں درویش کو حب وطن سے یک گونہ بے گانہ سمجھا جاتا ہے مگر یہ گھڑی ابنائے وطن سے حساب چکانے کی نہیں تھی۔ بدیسی اجنبی کو اپنے دیس کا حسن سجھانا مقصود تھا۔ مکالمہ تو طویل تھا… کچھ نکات اختصار سے عرض کئے دیتا ہوں۔
یا اخی، ہمارے دیس میں سو برس پہلے محمد علی جناح نام کا ایک شخص گزرا ہے۔ علم میں کامل، فراست میں چوکس، کردار میں کھرا اور اصول پسند ایسا کہ دوست دشمن اس کا نام عزت سے لیتے ہیں۔ قدیم سے آشنا تھا، جدید کا شناور تھا۔ تہذیب کا پتلا تھا۔ تقریر کا بادشاہ تھا۔ دلیل ایسی آبدار کہ حریف پر بجلی گرا دے۔ ایسا کوئی سیاسی لیڈر تمہارے دیس میں ایک صدی چھوڑ، پچھلے تین سو برس میں ایک آیا ہو تو نام بتاؤ۔ خیال رکھنا ہم لوگ بہت جانتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ 17 فروری 1945ء کو مصر کی جھیل فیوم کے شکارے میں کیا ہوا تھا۔ اور یہ بھی سمجھ لو کہ ایک جناح ہی نہیں، ہمارے دیس میں ایسے جوہر دماغوں کی روایت ایک سمرن مالا ہے۔ درجنوں سیاسی جماعتیں ہیں، رنگ رنگ کے افکار ہیں۔ باشعور اور اپنی سوچ کے دھنی سیاسی کارکن ہوتے ہیں، ہر وقت لیڈر پر آنکھ رکھتے ہیں۔ کوئی کیسا ہی تقدیس کا مجسمہ ہو، ذرا سی غلطی پر رد کر دیتے ہیں۔ ایک بات دلچسپ سنو، جلسے اجلاس میں بات کرتے سنو تو گویا قبائلی دشمنی ہے۔ مکالمہ ختم ہوا اور یہ ایک میز پر آن بیٹھے، معلوم ہوا کہ کوئی ذاتی غبار نہیں، محض اپنی روشنی میں دل کی بات کہتے تھے۔ تمہارے دیس میں ایسا ہوتا ہے کیا یا اخی؟
سنا ہے آپ کے دیس میں سرکار، درباراور کوتوال کا آدھا وقت تو عورتوں کو آنکنے اور ہانکنے میں گزر جاتا ہے ۔ہمارے دستور میں عورت اور مرد کو برابر کہا گیا ہے۔یہاں عورتیں گاڑی چلاتی ہیں، دفتر چلاتی ہیں اور گاہے پورا ملک بھی چلاتی ہیں۔ کبھی کبھار کسی مرد کے دماغ میں اختلال آجاتا ہے لیکن کار سرکار میں کسی کو جرأت نہیں کہ عورتوں کو مردوں سے کم سمجھے اور کم تر لکھے۔ ہم لوگ گلہ بانی کے زمانے سے بہت آگے نکل آئے ہیں۔
ایک بات مزے کی سنو ۔ ہم لوگ ہر پانچ برس بعد ووٹ سے بتاتے ہیں کہ ہمارا حکمران کون ہو گا۔ اس میں گلہ بان ، کوچوان اور دربان کی قید نہیں۔ امیر اور غریب کی شرط نہیں ۔ قبیلہ اور مسلک نہیں پوچھتے۔ سب کو کاغذ کا ایک جیسا ٹکڑا ملتا ہے اور جس کے نام زیادہ شہریوں کی رائے نکل آئے وہ ہمارا حکمران ۔ وہ ہمارا قانون بناتا ہے ۔ وہ ہمارا بھلا سوچتا ہے ۔ یہ جو تمہارے دیس میں جا کر ہمارے حکمران ایسے مسکین بن کے تم سے سوال کرتے ہیں۔ کچھ اپنے گھر نہیں لے جاتے۔ اپنے لوگوں کی چنتا میں یہ دکھ بھوگتے ہیں۔اور ہمارے ملک میں ایک مخلوق صحافی نام کی پائی جاتی ہے۔ تن پر کپڑا نہیں، پائوں میں جوتا نہیں ، گھر پر بچے بھوکے ہیں اور ماں بیمار ہے مگر ایسا سینہ تان کر حکمرانوں کو للکارتے ہیں کہ واللہ اس ملک میں جینے کا مزا معلوم ہو جاتا ہے۔ پیسے پیسے کا حساب مانگتے ہیں ۔ قانون کی کتاب ہر وقت میز پر کھلی ہے اور قانون بھی یہاں کچھ عجیب سا ہے۔ انصاف کرنے والے اس کتاب قانون کے پابند ہیں جسے حکمران مرتب کرتے ہیں۔ اور لطف یہ کہ اسی قانون کی مدد سے حکمران کو کٹہرے میں لاتے ہیں۔ ہر ملزم کو دفاع کا حق ملتا ہے۔ ایک لشکر وکیلوں کا ہر شہر ، قصبے میں موجود ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کسی بے گناہ کو سزا نہ ملے اور کوئی مجرم بچ کے نہ نکلے۔ یا اخی۔ آپ کے دیس میں نہ وکیل ہے ، نہ دلیل ہے ، نہ اپیل ہے۔ انصاف مجبوروں کی گردنیں مارنے کا نام تو نہیں ۔
ایک بات ہمارے دیس میں ایسی ہے کہ تمہارے فلک کو اس کی خبر نہیں۔ ہمارے ہاں سوچ آزاد ہے۔ کتاب لکھنے والا آزاد ہے۔ ہم کسی پیر فرتوت کے منظور کردہ علم کے پابند نہیں۔ اس لئے ہمارے ملک میں ادب تخلیق ہوتا ہے۔ فیض ، منیر ، گل خان نصیر ، ناصر اور شیخ ایاز پیدا ہوتے ہیں۔ تم بتائو، تمہارے ملک میں پچھلے سو برس میں کے عدد شاعر پیدا ہوئے؟ ہمارے ملک میں سُر آزاد ہے۔ ستار ہے ، سرمنڈل ہے ، تان پورہ ہے ، اکتارا ہے، روشن آرا بیگم ہے، صادقین ہے، درس گاہوں کا جال بچھا ہے۔ کسی مذہب ، مسلک اور فرقے کو کم تر نہیں جانا جاتا۔ ہمارے دیس میں محبت اور عبادت میں مداخلت کا چلن نہیں۔ ہم لڑائی بھڑائی کو اچھا نہیں سمجھتے مگر دنیا بھر میں ہماری دفاعی طاقت مانی جاتی ہے۔ فائر پاور انڈیکس پر اپنے ملک کا نمبر خود معلوم کر لینا۔ اپنی دھرتی کے دفاع میں لڑنے والوں کو ہتھیاروں کے انبار لگانے کا ہوکا نہیں ہوتا۔ ہم سادہ لوگ ہیں۔ اناج، سبزیاں اگاتے ہیں ۔ لکڑی کے ٹکڑے پر ایسے نقش بناتے ہیں کہ دیکھنے سے آنکھوں میں روشنی آتی ہے۔ ہماری انگلیوں میں مٹی روپ بدل لیتی ہے۔ ہم لوہے کو پگھلا نا جانتے ہیں۔ کپاس کے پھول سے تن زیب لباس بناتے ہیں۔ اور ہاں ایک بات ، یا اخی، ہم غریب لوگ ہیں لیکن مہمان نواز ہیں اور مہمان کا پاسپورٹ دیکھ کر میزبانی کا درجہ طے نہیں کرتے۔



.
تازہ ترین