• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے گھر کے سامنے طرح طرح کے مداری آتے تھے تماشے دکھانے، بندر کا تماشہ، ریچھ کا تماشہ، بکری کا تماشہ۔ ان میں ایک جادوگر بھی تھا۔ یہ جادوگر ہمارے ہاتھ کے انگوٹھے پر پیلا پیلا تیل مل کر ہمیں بادشاہ کا دربار دکھاتا اور کہتا اب مانگو بادشاہ سے کیا مانگنا ہے۔ وہ ہمارے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر تیل ملتا اور ہم سے کہتا ’’اس انگوٹھے پر نظریں گاڑے رکھو۔‘‘ ہم نظریں گاڑ دیتے۔ اب وہ کہتا ’’دیکھو وہ بھنگی آیا۔ وہ جھاڑو دے رہا ہے۔ اب بہشتی آیا۔ وہ پانی چھڑک رہا ہے۔ اور دیکھو، وہ سامنے بادشاہ کا تخت ہے۔ دائیں بائیں دو خادم مورچھل لئے کھڑے ہیں۔ اور لو، وہ بادشاہ سلامت بھی آ گئے۔ اور اب وہ تخت شاہی پر براجمان ہو گئے ہیں‘‘۔ وہ ایک ایک منظر بیان کرتا اور ہم سے پوچھتا ’’نظر آ رہا ہے؟‘‘ اور ہم سر ہلا دیتے کہ ہاں نظر آرہا ہے حالانکہ ہمیں کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہوتا تھا۔ اگر کچھ نظر آرہا ہوتا تھا تو صرف اپنا سایہ، جو چمکتے ہوئے تیل پر پڑ رہا ہوتا تھا۔ لیکن ہم یہ کہنا نہیں چاہتے تھے۔ ہم دوسرے بچوں پر رعب ڈالنا چاہتے تھے کہ دیکھو ہم نے کیا کمال کا جادو دیکھا ہے۔ پھر ہمیں یہ بھی ڈر لگ رہا ہوتا تھا کہ اگر کہہ دیا کہ ہمیں کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہے تو کہیں وہ جادوگر ہمیں ڈانٹ نہ دے کہ سامنے کی چیز تمہیں نظر نہیں آ رہی ہے؟ اور پھر وہ ہمارا ہاتھ چھوڑ کر کسی اور بچے کا ہاتھ نہ پکڑ لے۔ اور وہ بچہ سچ مچ وہی نہ دیکھ لے جو وہ جادوگر دکھانا چاہتا ہے۔ بادشاہ سے کچھ مانگنے کی بات وہ بھی بھول جاتا تھا اور ہمیں بھی یاد نہیں رہتی تھی۔
بچپن کا یہ واقعہ ایک تو ہمیں مبین مرزا کا فسانہ ’’یخ رات کا ایک ٹکڑا‘‘ پڑھ کر یاد آیا۔ دوسرے یاد آیا پچھلے دنوں ہونے والے مسلم سربراہوں کے اجتماع کی وجہ سے۔ مبین مرزا کا یہ افسانہ ان کے افسانوی مجموعے ’’زمین اور زمانے‘‘ میں شامل ہے۔ مبین مرزا شاعر ہیں، افسانہ نگار ہیں، نقاد ہیں اور اردو کے ایک موقر رسالے ’’مکالمہ‘‘ کے مدیر ہیں۔ انہیں کہانی کہنے کا جو سلیقہ آتا ہے اور زبان پر انہیں جو قدرت حاصل ہے ہم اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے۔ لیکن ہم اسے اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنے کی جسارت ضرور کر رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم شکایت کس بات کی کر رہے ہیں اور کس سے شکایت کر رہے ہیں؟ جس مقصد کے لئے سعودی عرب میں ایک عالیشان اجتماع کا اہتمام کیا گیا تھا وہ مقصد حاصل ہو گیا۔ ایران کے خلاف جو محاذ بنانا تھا وہ امریکہ اور میزبان ملک کی خواہش کے مطابق بن گیا۔ باقی سب تو سر ہلانے وہاں گئے تھے۔ اس صورت میں اگر ہمارے وزیر اعظم میاں نواز شریف وہاں تقریر کر بھی لیتے تو کیا فرق پڑتا بلکہ جاننے والوں کا تو کہنا ہے کہ اچھا ہوا انہوں نے تقریر نہیں کی۔ اگر وہ اپنی تقریر میں تمام فرقوں اور مسلکوں اور تمام مسلمان ملکوں کے درمیان اتفاق اور اتحاد کی بات کر دیتے تو معلوم نہیں کس کس کو ناراض کرتے۔ برادر عرب ملک کو ناراض کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ وہ ہمارا ان داتا ہے۔ ہمارے ہزاروں باشندے وہاں کام کرتے ہیں۔ ان کا بھیجا ہوا زرمبادلہ ہمارا بہت بڑا سہارا ہے۔ برادر ملک ہمارے ملک کی مالی مدد ہی نہیں کرتا، بلکہ ہمارے حکمرانوں کی ذاتی طور پر مالی مدد بھی کرتا ہے۔ اس لئے ہمیں سکھ کا سانس لینا چاہئے کہ ہم بچ گئے۔ اب اس اجتماع کے بعد ایران کو کوئی نقصان پہنچتا ہے یا نہیں؟ یہ تو بعد میں دیکھا جائے گا۔ البتہ اسرائیل جو پہلے ہی بہت محفوظ تھا اس اجتماع کے بعد اور بھی محفوظ ہو گیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار ایک جہاز سعودی عرب سے سیدھا اسرائیل کے ہوائی اڈے پر اترا۔ تل ابیب کے ہوائی اڈے پر اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے جس بے تکلف انداز میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بھاری بھرکم جسم کی طرف اپنا ہاتھ اچھالا اس نے ظاہر کر دیا کہ ان صاحب سے اپنی بے پناہ خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی ہے۔ نیتن یاہو نے اپنے چہرے پر پھیلی فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ ٹرمپ کے دائیں پہلو کی طرف ایسے ہاتھ بڑھایا جیسے یار لوگ مذاق میں ایک دوسرے کے جسم پر ہاتھ مارتے ہیں۔ وہ تو ٹرمپ نے فوراً مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھا دیا ورنہ شاید نیتن یاہو کا ہاتھ ٹرمپ کی پیٹھ پر پڑتا۔ اور ’’یاہو‘‘ کا نعرہ بلند ہوتا۔
ایک صاحب نے ہمیں یہ شعر بھیجا ہے
بڑے خطرے میں ہے حسن گلستاں ہم نہ کہتے تھے
چمن تک آ گئی دیوار زنداں ہم نہ کہتے تھے
تو صاحب ہم تین طرف سے تو بری طرح گھر گئے ہیں۔ اب تک ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی مشرق اور مغرب کی طرف سے ہو رہی تھی۔ ہم ہر روز سنتے تھے کہ ہندوستان روزانہ ہماری سرحد کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اس کی طرف سے مسلسل گولہ باری کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف افغانستان سے بھی ہمیں شکایت تھی کہ اس کی فوج ہمارے علاقے پر گولیاں بر سا رہی ہے۔ مگر اب تک جنوبی سرحد پر ہمیں ایسی کوئی شکایت نہیں تھی۔ لیکن اب ہمیں یہ شکایت بھی پیدا ہو گئی ہے۔ اب ایران کی جانب سے بھی ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ہمارے کئی سپاہی اس میں مار ے جا چکے ہیں۔ گویا ہم اب سہ طرفہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایک سرحد جو ابھی تک ٹھنڈی تھی وہ بھی گرم ہو چکی ہے۔ شکر ہے چین کے ساتھ ہمارے اقتصادی تعلقات ہیں اس لئے ہماری وہ سرحد محفوظ ہے۔ تو کیا ہم نے یہ سوچا ہے کہ ایران کے خلاف جو محاذ بنایا گیا ہے اگر وہ واقعی سرگرم ہو گیا تو ہمارا کیا ہو گا؟ ایران سعودی عرب کے معاملے میں اب تک خاموش تھا مگر اب ایران کے روحانی پیشوا نے بھی کھل کر سعودی عرب کے خلاف تقریریں شروع کر دی ہیں۔ ظاہر ہے، اس چپقلش سے دہشت گرد ہی فائدہ اٹھائیں گے۔ مانچسٹر میں جو حملہ ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ ادھر ہمارے ہاں پہلے ہی جو فرقہ وارانہ منافرت موجود ہے اسے اور بھی ہوا ملے گی۔ لیکن ابھی تک تو ہماری حالت وہی ہے جو بچپن میں جادوگر کے سامنے ہماری تھی۔ ہم جادوگر کے کہنے پر سر ہلا رہے تھے حالانکہ جانتے تھے کہ ہم غلط کہہ رہے ہیں۔



.
تازہ ترین